لمحۂاولیں گزرچکا ، لحظۂآخریں آیا چاہتا ہے
دہشت گرد آسمان چھونے کے زعم میں گم ہیں اور ادھر ارض ان کے قدموں سے کھسکا چاہتی ہے ۔ہو نہیں سکتا کہ صورتحال انسانی ہاتھوں اور دماغوں سے نکلا چاہتی ہو ۔سرنگ کے آر پار دونوں جانب بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے کیا ؟جن بوتل سے باہر تو خیر کب کا آچکا پر سامری اور ساحر اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے چلے ہیں ۔دہشت گردوں کی خونخواری و خونریزی اور سنگدلی و سفاکی نے کرہ ارض اور کائنات کو جہنم میں جھونک ڈالااور نوعِ انسانی وحشت وبربریت کی ہلا مارنے والی کیفیت کی زد میں ہے ۔ہائے بدبختی!وائے تیرہ قسمتی!عالم اسلام کے بلاد و امصارمیں محراب و منبر سے کہیں بھی کوئی ایسی آواز نہیں اٹھتی جس پر دنیا کے کان کھڑے ہو سکیں ۔لے دے کے سیاسی اور عسکری قیادتیں ہیں جو کسی صبح صادق کی آمد کا مژدہ جانفزا سناتی ہیں یا پھر سمندر پار سے کالے کلوٹے بارک اوبامہ کی کہی ہوئی کہن دل کا ملال لے جاتی ہے ۔صنم خانے سے کعبے کے پاسباں آگے آئے اور بولے کہ سارے مسلمان نہیں ۔۔۔مٹھی بھر لوگ ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔ جی ہاں!معدودے چند مہم جو ہی ہیں جو اپنی فقہ کو شریعت کا نام دے کر حقِ حکمرانی مانگتے ہیں اور چاہا کئے کہ ان کی ملائی سلطانی کی راہوں پر چل نکلے ۔
عباسی خلافت کے عہدِ ضعف اور کمزور ریاستی عملداری کے جھٹپٹے میں دین و دنیا کی جو الگ الگ تقسیم عمل میں آئی ۔۔۔اس کے بڑے مضر و مذموم اور دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔فقہی موشگا فیوں اور شخصی دبستانوں نے ایک طبقے کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسلام کی تعبیر و تشریح کے نام پر اپنی اجارہ داری مستحکم و مضبوط کر لے ۔عالم اسلام میں پہلی بار اسی دور میں دنیا کو دارالاسلام اور دارالکفر کے خانوں میں بانٹا گیا ،اہل کتاب کے ضمن میں ہمارے رویے اور نظریے بدلنے لگے اور مسلمان متعدد مسائل پر التباسِ فکری اور انحرافِ نظری کا شکار ہوئے۔آگے چل کر فہم اور فقہ کے نام پر چرخ نیلی فام نے وہ وہ مناظر دیکھے کہ بس توبہ بھلی ۔عباسی خلافت سنی اسلام کی نقیب تھی تو فاطمی خلافت شیعی اسلام کی علمبردار قرار پائی ۔ساتھ ساتھ نا محسوس طور پر شیخ الاسلام اور مفتی اعظم کا منصب بھی منصہ شہود پر ہویدا ہوا تو امت کی سمت ہی کھوئی گئی۔فہم اسلام کے نام پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں اور عالم اسلام کا منظر مینارہ بابل کی یاد دلا نے چلا ۔جب آنکھ کھلی تو قومی مسلمانوں نے اسلام کا ایک ایسا فرقہ وارانہ ایڈیشن تشکیل و ترتیب دے دیا تھا کہ جس میں ان کے سوا بقیہ سبھی صالح اور سعید نفوس پر بھی زندگی جینے کے راستے بند تھے ۔
طالبان ہوں کہ بوکو حرام یا پھر داعش ۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنے مسلک کے سوا باقی کسی کو بھی حیاتی بِتانے کا برابر حق دینے کو تیار کہاں۔ان کا نظریہ او ر بیانہ اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ان ہی کاگروہ باقی اور برقراررہے اوربقیہ ذی روح کسی اور کہکشاں یا سحابیے پر سدھار جائیں۔نیم خواندہ انسانوں کی مجرمانہ اور مجنونا نہ سوچ سے انسانیت کا مستقبل مخدوش ہونے چلا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں جاگی ہیں اور امن کے لئے اقدامی عمل پر آمادہ ہیں۔بس کوئی دن آتا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہو لت کاروں کو کہیں بھی جائے امان نہیں ملنے والی۔ ان کا لمحہ اولیں توگزرچکا البتہ لحظہ آخریں آیا چاہتا ہے کہ اب بہت سوں کے دل و دماغ میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ انسانیت کا مستقبل امن ہی سے جڑا ہے۔ذاتِ ختمی رسالت کا لایا ہوا اسلام اور ہے اور ان کا فرقہ وارانہ اسلام اور ہے ،اسلام کی تعلیمات اور ہیں اور ان کے نظریات دوسرے۔دکھ تو یہ ہے کہ جواسلام کے خودساختہ ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں ،ان کی جانب سے دہشت گردوں کی کوئی قابل ذکر مزاحمت اور مخالفت نہیں ہوئی۔ کوئی اکا دکا آوازیں اگر اٹھیں بھی تو وہ بھی اگر مگر کے ساتھ ،چونکہ چناچہ اور لہذا کے ساتھ ۔پوری دنیا کے لئے جو مذہب ہدایت اور رحمت بن کر آیا تھا ،اس کے نادان پیروکاروں نے ہی اس کی اصل شکل و صورت ایسی مسخ اور مسموم کی کہ۔۔۔’’پہچانی ہوئی صورت پہچانی نہیں جاتی ‘‘۔
چہرے بشرے پراصرار اور شکل وصورت پر تکرار ہی ان کا اسلام قرار پایا ،رسوم عبودیت کو ہی یہ لوگ اصل اسلام سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہے ۔روحِ عبودیت یا غایتِ وحی ان کی نگاہ سے اوجھل ہی رہی۔حالانکہ انبیائی اسلام انسان کا اندرون بدلتا ہے ،دین حنیف تو دل کی دنیا بدلتا ہے ۔ اب کون سمجھائے کہ ابولہب اور ابو جہل اپنی تما م تر عربیت اور ثقافت و شباہت کے باوجود دائرہ اسلام سے باہر ہی سمجھے گئے اور دور پار سے آنے والے صہیب رومیؓو سلمان فارسیؓاپنی تمام ترمغائرت و بیگانگت کے باوجود اپنے پائے گئے ۔