بنگلہ دیش میں پھانسیوں کا معاملہ عالمی ادارۂانصاف میں لے جانا چاہیے
بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو پھانسی دیئے جانے کے معاملے پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔حال ہی میں حزب اختلاف کے دو رہنماؤں صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بنگلہ دیش میں اپوزیشن رہنماؤں کو پھانسی دینے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔ 2013ء میں بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر مْلا کی پھانسی کے خلاف پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈھاکا میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی سفارت خانے کا محاصرہ کر لیا تھا اور اس کے اند ر داخل ہونے کی کوشش کی تھی، جسے پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں پھانسیوں کے خلاف جماعت اسلامی کے زیر اہتمام مال روڈ پر واقع مسجد شہدا کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا، جس میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ سلمان بٹ، امیر جماعت اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد اور مولانا جاوید قصوری نے بھی خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اور ہمارے حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں۔ حسینہ واجد پاکستان کے وفاداروں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے تو ہمارے بے حس حکمران اس ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جن نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی جانیں پاکستان پر نچھاور کیں ، ان کے لئے عالمی ادارۂ انصاف میں آواز نہ اٹھانا حکمرانوں کی بے حسی اور نظریۂ پاکستان سے روگردانی کا واضح ثبوت ہے۔ لبر ل پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کے لئے بنگلہ دیش اور کشمیر کے شہدا کے خاندانوں کے زخمو ں پر نمک پاشی کی۔ بنگلہ دیش میں پھانسی پانے والوں کی لڑائی اقتدار کی کرسی کے لئے نہیں، بلکہ پاکستان، جسے وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے ، کی بقا اور سلامتی کے لئے تھی ۔ انہوں نے نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ پاکستان مدینہ کی ریاست کے بعد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے، جس کی حفاظت اور خدمت کو ہم مقدس ترین جہاد سمجھتے ہیں اور جن لوگوں نے اس کی خاطر اپنے سر پیش کئے ، وہ ہماری نظرمیں عظیم مجاہد ہیں۔
حکومت پاکستان نے بنگلہ دیش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور پھانسیاں پانے والوں کے ساتھ لاتعلقی اور بیگانگی کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو قوم کی نظروں میں مجرم ثابت کر دیاہے، اگر پروفیسر غلام اعظم کی وفات اور دیگر قائدین کی پکڑ دھکڑ کے موقع پر حکومت عالمی ادارۂ انصاف سے رجوع کرتی تو شاید کچھ لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور ہمیں بھی تسلی ہوتی کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان سے وفا کرنے والوں کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور تماشا دیکھتے رہے، جس کی وجہ سے اب تک 45 لوگوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور چار ہزار سے زیادہ لوگ قید میں ہیں، جبکہ بھارت کے وزیراعظم مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر بیان دیا کہ وہ مکتی باہنی کے تخریب کاروں میں شریک ہو کر پاکستان کو دو لخت کرنے کے لئے دہلی سے ڈھاکہ پہنچے تھے۔ کیا ہمارے حکمران 1974 ء کو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر مودی اور حسینہ واجد کے خلاف عالمی ادارۂ انصاف میں نہیں جاسکتے تھے ؟
امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد نے کہاکہ ہماری دعاہے کہ نوازشریف اور راحیل شریف بھی بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کے خلاف لب کھولیں۔ حسینہ واجد بھارت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کی جنگ لڑنی چاہیے اور بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں کو ناکام بناناچاہیے۔ امیر جماعت اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہدنے کہا کہ حسینہ واجد بھارتی ایما پر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ آج اگر وہ ہمارے بزرگوں کو پاکستان کی محبت کے جرم میں پھانسیاں دے رہی ہے تو کل کو پاکستانی جرنیلوں کو بھی طلب کر سکتی ہے۔ 1971 ء میں پاکستانی فوج اور عوام پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ اگر یہ جرم ہے تو اس وقت کے صدر اور وزیراعظم بھی مجرم تھے اور کل کلاں ان کے خلاف بھی عالمی سطح پر ایکشن کا مطالبہ سامنے آسکتاہے، جس کے الزام میں قید و بنداور موت کا کھیل کھیلا جارہاہے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ 1971 ء میں بھارت نے پاکستان کو توڑنے اور سبق سکھانے کا جو ایجنڈا دیا تھا ، حسینہ واجد اس کو پورا کررہی ہے۔ ہم البدر اور الشمس کے ان دس ہزار شہداء اور پاکستان کی محبت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکائے جانے والے بزرگوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی ا حسن مجاہد اور بی این پی رہنما صلاح الدین قادر نے پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگایا، مگر پاکستان کی محبت دلوں سے نہ نکل سکی۔ یوں 1971ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں مزید دو اپوزیشن لیڈر بنگلہ دیشی حکومت کی انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔