بلدیاتی انتخابات ،بلدیاتی نظام میں ضلع ملیر 2حصوں میں تقسیم
کراچی(اسٹاف رپورٹر)بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لیے 5دسمبر کوکراچی میں ہونے والے انتخابات میں ضلع ملیر کو بلدیاتی نظام میں دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصہ ضلع کونسل کراچی اور دوسرا حصہ میٹروپولٹین کارپوریشن پر مشتمل ہے ۔ ضلع ملیر کراچی کے مختلف دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اور یہ ضلع بے نظیر بھٹو کے دور میں بنا تھا ضلع ملیر مجموعی طور پر 6سب ڈویژن پر مشتمل ہے جن میں ملیر سب ڈویژن ،بن قاسم سب ڈویژن اور گڈاپ سب ڈویژن ہے ۔ضلع ملیر میں کل آبادی18لاکھ سے زائد ہے جب کہ کل ووٹرز کی تعداد 6لاکھ 41ہزار14ہے ۔مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداوشمار کے مطابق یہاں پر سندھی ،بلوچ،ہزارہ ،اردو ، پنجابی، پشتو،گلگتی،کشمیری اور دیگر زبانیں بولنے والے آباد ہیں مذہبی حوالے سے 97فیصد مسلمان اور 3فیصد مختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہیں ضلع ملیر کے اہم علاقوں میں جعفر طیار ،بن قاسم ،مراد میمن گوٹھ ،ابراہیم حیدری ،شرافی گوٹھ،مانسہرہ کا لونی ،غازی بروہی گوٹھ ،گھگر پھاٹک ،بھینس کا لونی ،گلشن حدید ،ریڑھی گوٹھ ،لانڈھی ،قائد آباد ،درسانو چھونو،گوجرو،منگھو پیر اور دیگر دیہی علاقے شامل ہیں ملیر کا زیادہ حصہ دیہی علاقے ہونے کی وجہ سے بلدیاتی نظام میں ضلع ملیر کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصہ ضلع کونسل کراچی اور دوسرا حصہ میٹروپولٹین کارپوریشن پر مشتمل ہے ۔ ضلع کونسل کی 32یونین کونسلیں بنائی گئی ہیں جب کہ میٹروپولٹین کارپوریشن کی13یونین کمیٹیاں ہیں مندر جہ زیل چارٹ میں یونین کمیٹیوں کی تفصیلات دی جارہی ہیں ۔ضلع ملیر میں مجموعی طور پر کل ووٹرز کی تعداد 6لاکھ 41ہزار148ہے جن میں سے 3لاکھ 38ہزار704مرد 2لاکھ 62ہزار444 خواتین ووٹرز کی تعداد ہے پولنگ کے لئے مجموعی طور پر513پولنگ اسٹیشن اور1875پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں ۔مردوں کے لئے 945اور خواتین کے 930پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں ۔مجموعی طور پر6159افراد پر مشتمل انتخابی عملہ پولنگ کی نگرانی کرئے گا جن میں سے 513پریزائڈنگ افسران ،1875پولنگ افسران،3750اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسران 18نائب قاصدین ہیں ضلع ملیربھی کراچی کے حساس اضلاع میں سے ایک ہے تاہم حکومت سندھ نے کراچی کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں ضلع ملیر کو کم حساس قرار دیا ہے حکومت سندھ کے مطابق 513میں سے 222پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس 170حساس اور121نارمل ہیں ضلع ملیر میں مجمعوعی طور پر303نشستیں ہیں جن میں سے یونین کمیٹی اور یونین کونسل کے 45چیئرمین کے لئے 191امیدوار 45وائس چیئرمین کی نشست کے لئے 191،وارڈ کونسلرز کی 180نشستوں کے لئے 828اور ضلع کونسل کی 32نشستوں کے لئے133امیدواروں کے مابین مقابلہ متوقع ہے کونسلرز کی6نشستوں پر امیدواربلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں اس طرح مجمعوعی طور پر 297نشستوں کے لئے1114امیدواروں کے مابین مقابلہ ہے۔ضلع ملیر میں یونین کمیٹیوں کی حد تک کسی ایک پارٹی کو واضح برتری حاصل نہیں تاہم ضلع کونسل میں صورت حال مختلف ہے مختلف ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق یونین کمیٹی دواود چورنگی میں جماعت اسلامی ،تحریک انصاف ،عوامی نیشنل پارٹی ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین اصل مقابلہ ہے یونین کمیٹی مسلم آباد میں پیپلز پارٹی ،جمعیت علماء اسلام ،ن لیگ اور جماعت اسلامی کے مابین مقابلہ ہے ،یونین کمیٹی3میں جمعیت علماء اسلام ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان زبردست مقابلہ متوقع ہے ۔یونین کمیٹی4مجید کالونی میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین مقابلہ دیکھائی دے رہا ہے یونین کمیٹی5بھینس کالونی میں پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف ،ن لیگ اور ایم کیو ایم کے مابین سخت مقابلے کا امکان ہے یونین کمیٹی6میں پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف ،ن لیگ ،ایم کیو ایم میں سخت مقابلے کاا مکان ہے۔یونین کمیٹی 7قائد آباد میں اصل مقابلہ ن لیگ ،جمعیت علماء اسلام اور تحریک انصاف کے مابین متوقع ہے یونین کمیٹی8معین آباد میں تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور ن لیگ کے مابین مقابلہ ہے۔یونین کمیٹی نمبر 9شرافی گوٹھ میں پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف اور آزاد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے ،یونین کمیٹی10غازی بروہی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین سخت مقابلے کا امکان ہے یونین کمیٹی نمبر11جعفر طیار میں مجلس وحدت مسلمین ،پیپلز پارٹی ،ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کے امیدوارمقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں ۔یونین کمیٹی12غریب آباد ملیر میں ایم کیو ایم حقیقی ،جماعت اسلامی ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین مقابلہ ہے ۔یونین کمیٹی 13بھٹائی آباد میں پیپلز پارٹی ،ن لیگ ،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے مابین مقابلے کا امکان ہے ۔مجمعوی طور پر مختلف یونین کمیٹیوں میں مختلف جماعتوں کی پوزیشن مستحکم دیکھائی دیتی ہے اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد ملیر کی یونین کمیٹیوں میں ہوتا تو پوزیشن مزید مستحکم ہونے کا امکان تھا بیشتر یونین میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔