جنرل (ر) پرویز مشرف ایک بار پھر ملک کو بہتر لیڈر شپ دینے کیلئے بے قرار
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
لیجئے جناب ایک اور سیاسی جماعت مطلأ سیاست پر طلوع ہونے والی ہے جس کے سربراہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہوں گے۔ آپ بجا طور پر یہ سوال کرسکتے ہیں کہ ان کی پہلی جماعت یعنی آل پاکستان مسلم لیگ کدھر ہے اور پہلی جماعت کو نظرانداز کرکے انہیں نئی جماعت بنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل صاحب نے نئی جماعت کی تشکیل کا مقصد یہ بتایا ہے کہ ’’یہ جماعت ملک میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کم کرے گی‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام جماعتیں لسانی بنیادوں پر بٹی ہوئی ہیں جو وفاق کیلئے صحیح نہیں۔ انہوں نے موجودہ لیڈر شپ کو نااہل قرار دیا اور کہا ’’میں عوام کو بہتر لیڈر شپ دینا چاہتا ہوں‘‘۔
صدر پرویز مشرف لگ بھگ 9 سال پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اس دوران انہوں نے طویل عرصے تک ملک کے آئین کو سرد خانے میں منجمد رکھا، جب وہاں سے نکالا تو بھی اس کی بعض شقوں کے بارے میں حکم دیا کہ ان پر عملدرآمد معطل رہے گا۔ بادشاہتوں کی بات الگ ہے ورنہ دنیا میں بہت کم ایسے ملک ہوں گے جنہیں ان کے عہد حکومت میں وہ اختیارات حاصل ہوں جو صدر پرویز مشرف نہ صرف استعمال کر رہے تھے بلکہ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ وہ یہ سب کچھ ملک کی خاطر کر رہے ہیں۔ اپنی اس دلیل میں وزن پیدا کرنے کیلئے انہوں نے اپنی کتاب کے اردو ایڈیشن کا عنوان ہی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر کو جو اختیارات حاصل ہیں وہ دنیا میں بہت کم حکمرانوں کو میسر ہوں گے لیکن یہ اختیار امریکی صدر کو بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے ملک کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وائٹ ہاؤس میں بلائیں اور پانچ سات جرنیلوں کی موجودگی میں ان سے استعفا طلب کریں اور اگر وہ انکار کردے تو آپے سے باہر ہوکر اسے برطرف کردیں لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف اتنے بااختیار تھے کہ وہ ایک چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں طلب کرکے ان سے استعفا مانگ سکتے تھے اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں اپنے ماتحت جرنیلوں کو یہ ہدایت بھی کرسکتے تھے کہ ان سے استعفا لے کر انہیں دیں اور پھر بھی نہ ملے تو پوری سپریم کورٹ کو تہہ و بالا کرسکتے تھے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپنی مرضی کے جج لگا کر ان سے مرضی کے فیصلے بھی لے سکتے تھے۔ اتنے اختیارات کے باوجود انہوں نے ملک کو کس حد تک سربلند کیا اور کتنا شرمسار کیا، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ ان کا عہد جیسا بھی تھا اسے تاریخ کے حوالے ہوئے آٹھ سال بیت گئے۔ صدارت کا عہدہ انہوں نے برضا و رغبت چھوڑا تھا یا ان پر کوئی دباؤ تھا اس بحث کو فی الحال یہیں چھوڑ کر بات اس وقت سے شروع کرتے ہیں جب انہوں نے صدارت سے علیحدگی کے دو سال بعد اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اس کے ذریعے دوبارہ ملک کی خدمت کا فیصلہ کیا، غالباً وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جو خدمت 9 سال تک حکمران رہنے کے باوجود نہیں کرسکے اور اس میں جو کسر رہ گئی تھی اس کیلئے ان کا دوبارہ برسر اقتدار آنا ضروری ہے۔ جب انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا، اس وقت پہلے سے کئی ایسی جماعتیں موجود تھیں جن میں وہ شامل ہوسکتے تھے۔ مثلاً مسلم لیگ (ق) تھی جس کی تشکیل کا کریڈٹ انہوں نے اپنی کتاب میں لیا ہے، لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوئے۔ شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ میں بھی ان کا مقام بنتا تھا لیکن انہوں نے ادھر بھی نگاہ نہیں ڈالی، ایم کیو ایم کی سرپرستی انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کی، وفاقی اور سندھ حکومت میں انہیں شریک کیا، سندھ میں ایم کیو ایم کا گورنر بنایا جنہیں وہ اختیارات بھی دیئے گئے جو کسی دوسرے صوبے کے گورنر کو حاصل نہیں۔ ان تمام امکانات کو ختم کرکے انہوں نے اپنی پارٹی غالباً اس امید پر بنائی کہ وہ اس کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے انہوں نے تین حلقوں سے کاغذات نامزدگی داخل کئے جو مسترد ہوگئے اور انہیں الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دیدیا گیا البتہ اس وقت قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کے ٹکٹ پر ایک رکن موجود ہے۔
2013ء کے الیکشن کے نتیجے میں وزیراعظم نواز شریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم کے اس فیصلے پر چاروں جانب خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور وہ اچانک بیمار ہوگئے، ایک دن انہیں چک شہزاد کے فارم ہاؤس سے عدالت لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں رخ ہسپتال کی جانب موڑ دیا گیا۔ عدالتوں میں اس مقدمے کے علاوہ بھی کئی مقدمات زیر سماعت تھے ان سب میں وہ طبی بنیاد پر غیر حاضر رہے یہاں تک کہ ایک روز ملک سے باہر چلے گئے اور اب تک واپس نہیں آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ واپس آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں عدالتوں میں بلاوجہ گھسیٹا جا رہا ہے۔ اب انہوں نے یکایک ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی نوید سنا دی ہے جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ریاست کی طرف سے آرٹیکل 6 کا مقدمہ عدالت میں دائر کئے جانے کے بعد وہ کسی جماعت کے سربراہ بننے کی اہلیت کھو چکے ہیں۔ اس لئے وہ نہ تو آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر رہ سکتے ہیں نہ کسی نئی جماعت کی سربراہی سنبھال سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کسی جماعت کی رکنیت کے بھی اس وقت تک اہل نہیں جب تک وہ اس مقدمے سے بری نہیں ہو جاتے۔ ایسی صورت میں وہ اگر ملک کو بہتر لیڈر شپ دینے کی خواہش رکھتے ہیں تو بھی عملاً ایسا ممکن نہیں۔ وہ اگر نئی جماعت بنا بھی لیتے ہیں اور اس جماعت کو الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے تو بھی اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ خود امیدوار بن سکتے ہیں یا نہیں اور اگر بن بھی گئے تو نئی جماعت کی اسمبلی میں کیا پوزیشن ہوگی؟ پچھلے دنوں یہ تصور سامنے آیا تھا کہ انہیں ایم کیو ایم کی قیادت سونپ دی جائے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے اعلان کردیا کہ ایم کیو ایم میں قیادت کی کوئی جگہ خالی نہیں، اس کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف نے یہ اعلان کردیا کہ موجودہ حالات میں ایم کیو ایم کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتی۔ جہاں تک ملک کو اچھی لیڈر شپ فراہم کرنے کا تعلق ہے اس سے کسی کو کیا اختلاف ہوسکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب جنرل پرویز مشرف پہلے کی طرح طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ نہیں کرسکتے ان کی الیکشن میں جیت کے امکانات کتنے ہیں۔ یہ سوال تو تب اٹھے گا جب وہ الیکشن لڑنے کے اہل قرار پائیں گے اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کے پاس اپنی لیڈر شپ قوم کے سامنے پیش کرنے کا کیا طریقہ ہے یہ وہی جانتے ہیں اور ممکن ہے کسی وقت وہ اس کی تفصیلات بھی بیان کریں فی الحال تو انہوں نے ملک کی ساری سیاسی قیادت کو نااہل کہہ کر مسترد کردیا ہے۔جس میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ساری اپوزیشن بھی شامل ہے۔