امرتسر میں بھارت نے آگرہ کی تاریخ دہرادی

امرتسر میں بھارت نے آگرہ کی تاریخ دہرادی
امرتسر میں بھارت نے آگرہ کی تاریخ دہرادی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امرتسر سے خصوصی تجزیہ سہیل چوہدری
امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں سکیورٹی کا بہانا کرکے بھارت نے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی،امرتسر میں ایک بار پھر آگرہ کی تاریخ دہرا دی جس میں انہوں نے مذاکرات میں ناکامی پر پرویز مشرف کو میڈیا سے بات نہ کرنے دی تھی،پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کوہوٹل سے ہی نہ نکلنے دیا گیا وہ گولڈن ٹیمپل بھی نہ جاسکے ،حتیٰ کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو پاکستانی میڈیا سے بھی بات نہ کرنے دی گئی جس پر انہوں نے وطن واپسی پر ہنگامی پریس کانفرنس کرنے کااعلان کیا،پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھی میڈیا سے دورکرنیکی کوشش کی گئی مگر انہوں نے کہا کہ یہ میرے اپنے لوگ ہیں مجھ سے انہیں بات کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،بھارت نے تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے اقدامات اور رویوںسے پاکستان دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کیا،”یک نہ شد دو شد “مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ بھارتی وزیراعظم کا ایک مصافحہ طے شدہ تھا لیکن یکایک موسم کی تبدیلی نے کام دکھایا اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز امرتسر ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت ایک روز قبل پہنچ گئے تھے یوں بھارتی وزیراعظم مودی سے انکا دو بار ٹاکر ہوا دونوں بار مصافحہ ہو ااور بات چیت بھی ہوئی تاہم عام طورپر یہی گمان تھا کہ پاک بھارت سفارتی تعلقات سرحدی صورتحال کی بناءپر اس نہج کو پہنچ گئے ہیں کہ شائد اس بار ہارٹ آف ایشیاءکی سائیڈ لائن پر کوئی دو طرفہ پیش رفت نہ ہو لیکن گزشتہ روز نہ صرف مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا دوبارہ بھارتی وزیراعظم مودی سے مصافحہ ہوگیا بلکہ ان کی بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول سے ملاقات بھی ہوگئی جبکہ ایک روز قبل بھارتی حکومت کے عشائیہ پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز اوربھارتی وزیراعظم مودی کئے مابین جن تہنیتی فقروں کا تبادلہ ہوگیا تھا اس سے لگتا تھا کہ شائد برف پگھل رہی ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوابھارتی رویہ اس کے برعکس تھا ،تاہم پاک بھارت سرحدی کشیدگی ، لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ اور دوطرفہ سفارتی ڈیڈ لاک کے مناظر میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی بھارتی سلامی کے مشیر اجیت دول نہ صرف ایک سفارتی بریک تھرو ہے بلکہ دو طرفہ ڈائیلاگ کے آغاز کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے اس خطے میں ہونے والی تمام علاقائی اورعالمی کانفرنسوں کے موقع پر ہمیشہ سائیڈ لائن پر پاک بھارت دو طرفہ ملاقاتیں نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ، اور سائیڈ لائن پر یہی ملاقاتیں پوری کانفرنس پر چھائی رہتی ہیں ، ہارٹ آف ایشیاءمیں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے.

ہندوستانی اخبارات نے نہ صرف ہارٹ آف ایشیاءکو نمایاں کوریج دی ہے بلکہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی ایک روز قبل آمد کو شہہ سرخیوں میں نمایاں کیا گیا تاہم بھارتی اخبارات نے روایتی طورپر پاکستان پر الزا م تراشیاں کی ہیں اخبارات نے بھارت افغان ٹریڈ کو بھی موضوع بنایا ہے اور پاکستان کے بارے میں جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے رکاوٹیں ڈال رہا ہے ، تاہم ایک بات واضح ہے کہ بھارت کی جانب سے سارک کانفرنس کا بائیکاٹ ملتوی کروانے کے رد عمل میں اگر پاکستان ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا بائیکاٹ کرنا تو شائد اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلتا لیکن پاکستان نے ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت کا مثبت نتیجہ نکلتا نظر آتاہے ، سرتاج عزیز کی بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ خیر سگالی فقروں کا تبادلہ ، سرتاج عزیز کی جانب سے اپنی بھارتی ہم منصب ششما سوراج کو پھولوں کا گلدستہ بھیجوانا اور پھر بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سے دو طرفہ ملاقات خطے میں قیام امن کے حوالے سے اہم پیشرفت قرار دی جارہی ہے ،تاہم ایک طرف اعلیٰ سفارتی سطح پر یہ مثبت اشارے مل رہے تو دوسری جانب عمومی پاک بھارت معاملات میں بھارت کے رویہ میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس کے حوالے سے تعینات ایک ہی افسر ہیں جنہیں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں میڈیا سے متعلق امور نبہانے کی خاطر امرتسر آنے کی اجازت بھارتی حکومت نے نہیں دی جبکہ پاکستانی میڈیا کے وفد کو بھی کوریج کیلئے مشکلات کا سامنا تھا ، پاکستانی میڈیا کے وفد کو یہاں بھارت میں ہر مرحلہ پر مسائل کا سامنا تھا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار سائے کی طرح صحافیوں اور سفارتی حکام کے پیچھے لگے ہوئے تھے میڈیا کے وفد کو بھارتی ویزوں کے حصول سے لے کر میڈیا سینٹر میں رسائی کےلئے رجسٹریشن کے عمل تک ہر جگہ دشواری ہی دشواری تھی ، جبکہ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ روز امرتسر میں انتہائی مصروف دن گزارا ، ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت کے علاوہ انہو ں نے افغان صدر اشرف غنی سے انتہائی اہم ملاقات کی اور افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا ،جبکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں مشیر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ منور ظریف اور ترکمانستان کے ڈپٹی وزیراعظم سے اہم ملاقاتیں کیں ، ان کی دونوں ملاقاتیں خطے میں نئی صف بندیوں، تبدیلیوں کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کی حامل تھیں جبکہ سرتاج عزیز نے کانفرنس میں بھی افغانستان میں استحکا م کے حوالے سے اپنا موقف دو ٹوک انداز میں پیش کیا اور آگاہ کیا کہ پاکستان نے افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لئے پر خلوص کوششیں کیں اور ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں قیام امن دیگر ملکوں سے زیادہ پاکستان کیلئے اہمیت کا حامل ہے ، سرتاج عزیز نے کانفرنس میں پاکستان کی اس ضمن میں مثبت کوششوں کو اجاگر کیا ، لیکن لگتا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی باتوں سے رام نہیں ہوپائے اورانہوں نے سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد بھی ہارٹ آف ایشیاءمیں اپنی تقریر کے متن میں شائد کوئی تبدیلی نہیں کی درحقیقت افغان صدر اشرف غنی بھارت کی زمین پر آکر مودی کی زبان میں ہی تقریر کی اور پاکستان پر الزام تراشی کی انہو ں نے اپنی تقریر میں پاکستان کی افغانستان کو دی جانےوالی 500ملین ڈالر امداد پر بھی تنقید کی تاہم مودی نے اپنی تقریر میں براہ راست طریقے سے پاکستان کو کسی طرح کی الزام تراشی سے گریز کیا لیکن بین السطور تنقید کا نشانہ بنایا نام لیئے بغیر انہوں نے مجموعی طورپر دہشتگردی کے حوالے سے بات کی ، ایسا لگ رہا تھا کہ مودی اور اشرف غنی نے ایک طے شدہ سکرپٹ کے مطابق تقریریں کیں بھارت نے بحیثیت میزبان ملک کچھ ہاتھ ہلکا رکھا لیکن ان کی کسر افغان صدر نے پوری کردی اور پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کئے لیکن مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے نہایت تحمل کے ساتھ افغان صدر کو جواب دیا اور کہا کہ الزام تراشیوںکے سلسلہ کے بجائے ہمیں ایک دوسرے سے تعاﺅن کی راہ اپنانی چاہئے ۔سفارتی ذرئع کے مطابق پاکستان کا ہارٹ آف ایشیاءمیں تمام تر فوکس افغانستان ہی تھا اس بناءپر کانفرنس میں افغانستان میںپاکستان کے سفیر ابرا راحمد خان اور دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل افغانستان منصور احمد نے شرکت کی جبکہ بھارت کے ساتھ کوئی دو طرف پیش رفت طے شدہ نہ تھی جس کی بناءپر ڈی جی ساوتھ ایشیاءامرتسر نہیں آئے کانفرنس کے دوسرے روز بھی ریڈیسن ہوٹل کے اطراف اور شہر میں سیکورٹی کے انتہائی سخت ترین اقدامات نظر آئے ، خصوصی روٹس اور جا بجا سیکورٹی چیک پوسٹوں کی بدولت امرتسر کے شہریوں کو نقل و حمل میں شدید مشکلات کا سامنا نظر آیا ۔

مزید :

تجزیہ -