ٹیکسٹائل پالیسی کی تشکیل نو کی جائے
پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پریگمیا) کے مرکزی چیئرمین اعجاز کھوکھر کی بزنس کمیونٹی کے لئے خدمات کو سنہری حروف میں لکھا جا سکتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ وہ کامیاب بزنس چلانے کے لئے دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں ، اعجاز کھوکھر ہر حال میں بزنس کمیونٹی ، خاص طور پر ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز کے لئے حکومت سے ہمہ وقت ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں ، گزشتہ کچھ برسوں سے وہ ایکسپو سنٹر میں کامیاب ایکسپوز کا انعقاد بھی کررہے ہیں جس میں دنیا بھر سے ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے نمائندے شرکت کرتے ہیں ۔ ملکوتی مسکراہٹ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے اور اس سے بڑھ کر ان کی طبیعت میں صلح جو کی خصوصیت انہیں سیالکوٹ سے لے کر لاہور ، لاہور سے لے کراچی اور کراچی سے لے کر اسلام آباد میں ایک مقبول شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کی خدمات کے عوض ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کئی مرتبہ انہیں چیئرمینی کے عہدے پر فائز کرچکی ہے ۔
روزنامہ پاکستان سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پریگمیا حکومت پر زور دے رہی ہے کہ ملک میں ٹیکسٹائل پالیسی کی تشکیل نو کی جائے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ایکسپورٹ کے مقررہ اہداف پورے کر سکے جو اس ضمن میں حائل رکاوٹیں دور کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مختلف سیکٹرز کو مدنظر رکھ کر پالیسی وضع نہیں کی جائے گی تب تک ملکی برآمدات میں جاری گراوٹ پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے اور ملک کو مضبوط تجارتی توازن سے ہمکنا ر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی جامع پالیسی جو سیکٹر سپیسفک ہو کے بغیر نہ تو برآمدات میں اضافہ ممکن ہے اور نہ ہی اس شعبے کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔
اعجاز کھوکھر کے مطابق پاکستان کے ہر صوبے میں جہاں جہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کے مراکز ہیں وہاں لوگ علیحدہ علیحدہ پراڈکٹس بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے حکومت کو مختلف ریجن میں لوگوں کی صلاحیتوں کے مطابق پالیسی وضع کرنی چاہئے تاکہ ان کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ وہ کہتے ہیں ایسی پالیسی ٹیکسٹائل کے شعبے کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں فعال ثابت ہوگی اور ہر طرح کے سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لینے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ریڈی میڈ گارمنٹس کے شعبے سے وابستہ برآمد کنندگان ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ اس کے باوجود کہ کئی طرح کی مشکلات ہماری راہ میں حائل ہیں ، ہماری سرتوڑ کوشش ہے کہ برآمدات میں اضافے سے تجارتی خسارے پر قابو پایا جائے اور ملکی خزانے کے وسیع تر مفاد میں برآمدارتی حجم میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ انہوں بتایا کہ کہ مارشل آرٹ سے متعلقہ پراڈکٹس کی برآمدات کے حوالے سے سیالکوٹ دنیا کا دوسرا بڑا شہر تصور کیا جاتا ہے ۔ سیالکوٹ کے برآمد کنندگا ن پوری محنت اور جانفشانی سے مارشل آرٹ یونیفارم کی برآمد بڑھانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ میں 125برآمدکنندگان سرگرم عمل ہیں جو 40کروڑ ڈالر کی برآمدات کویقینی بنارہے ہیں اور 2020تک اسے ایک ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کئے ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ مقامی ریڈی میڈ گارمنٹس کے برآمد کنندگان کو سب سے بڑی مشکل جی3، جی 4اور ٹیکنیکل فیبرک کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت ایسا کپڑا تیار نہیں کرتی ہے جبکہ ریڈی میڈ گارمنٹس کے طلب گار غیر ملکی خریدار ایسے فیبکرس سے بنے پراڈکٹس کا کثرت سے مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ریڈی میڈ گارمنٹس شعبے کا 30فیصد سے زیادہ کیش فلو حکومت کے پاس سیلز ٹیکس ری فنڈ اور کسٹم ری بیٹ کی شکل میں پھنسا ہوا ہے ۔ سرمائے کی اتنی بڑی مقدار بلاک ہونے سے پاکستانی ریڈی میڈ گارمنٹس کی کوالٹی میں مطلوبہ بہتری نہیںآپارہی ہے اور برآمدات کو مستحکم کرنے کے لئے جس سرمائے کی ضرورت ہے ، وہ حکومت کے پاس درج بالا مدات میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پیکجنگ کے بے پناہ مسائل ہیں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ پراڈکٹ اور پیکجنگ سنٹر کا قیام عمل میں لائے جس سے انڈسٹری کو بہتر پیکیجنگ کے طریقہ کار سے آگاہی ہو سکے۔
اسی طرح انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ یعنی آراینڈ ڈی کا قحط ہے جس کا بڑا سبب حد سے بڑھی ہوئی کاروباری لاگت ہے ، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اس ضمن میں خصوصی آر اینڈ ڈی کا اہتمام کرے تاکہ ملکی برآمدات میں 8ارب ڈالر کا خطیر اضافہ کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لے گی، تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
جب ان سے کہا گیا کہ پاکستانی برآمد کنندگان کے حوالے سے بڑی تنقید یہ ہوتی ہے کہ وہ نئی مارکیٹوں میں کام کرنے کی بجائے لگی بندھی مارکیٹوں میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پارہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سلسلے میں حکومت ایک ایسی جارح پالیسی وضع کرنا پڑے گی جس کا مرکزی نقطہ پرائیویٹ شعبے کو آن بورڈ لے کر ان کی تجاویز پر مشتمل نئی مارکیٹوں کی طرف توجہ دی جائے۔ اسی طرح سے انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت کو لانگ ٹرم تجارتی پالیسی بنانے کی بجائے سالانہ تجارتی پالیسی کی طرف آنا چاہئے جس میں برآمدات کا ہدف مقرر ہو اور پھر ایسے اقدامات کئے جائیں جو ان اہداف کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اسی ضمن میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاکستان سے باہر میڈ ان پاکستان نمائش کا اہتمام کرنا چاہئے جس میں پاکستانی برآمد کنندگان کو اپنی پراڈکٹس کو شو کیس کرنے کا موقع ملے۔ یہ نمائش نہ صرف مختلف ممالک کے کاروباری افراد کو پاکستانی پراڈکٹس سے متعارف کروائے گی بلکہ خود پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پریگمیا نے بین الاقوامی معیار کی نمائشوں کا اہتمام شروع کیا ہے جس کو اندرون ملک اور بیرون ملک کاروباری اور حکومتی حلقوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ خاص طور پر جب سے چینی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کیا ہے تب سے پریگمیا کی جانب سے منعقد کی جانے والی نمائشوں کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور پاکستانی برآمد کنندگان کو اپنے ملک کے اندر ایک چھت تلے ٹیکسٹائل کے شعبے میں متعارف ہونے والی نئی مشینر ی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس کو استعمال میں لا کر وہ اپنی پیداواری لاگت میں کمی لاتے ہیں اور بین الاقوامی معیار کی پراڈکٹس تیار کرکے پاکستان کے قیمتی زر مبادلہ کمارہے ہیں۔ انہوں نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان پر زور دیا کہ وہ ایسی نمائشوں کا ملک بھر میں انعقاد کرے تاکہ پاکستان کے ہر کونے میں بسنے والے ایکسپورٹر کو اس کا فائدہ ہو سکے اور پاکستانی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔
اعجاز کھوکھر نے پاکستان اپیرل فورم کی بھی بنیاد رکھی ہے جس کا مقصد پاکستان کو انٹرنیشنل اپیرل فیڈریشن سے منسلک کرنا ہے۔ حال ہی میں فیڈریشن کے صدر ہان بیکی ان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اعجاز کھوکھر کا کہنا ہے کہ پاکستانی اپیرل مینوفیکچررز کو پراڈکٹ ڈویلپمنٹ، فیشن ایجوکیشن اور تخلیقی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی برانڈز کی دنیا میں پذیرائی ممکن ہو جس سے پاکستانی برآمدات میں اضافے کا ہدف پورا ہو سکے اور علاقائی ممالک سے مقابلے کی سکت پیدا ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زور اس بات پر ہے کہ وہ دنیا کو کم لاگت کی پراڈکٹس فراہم کر سکے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل پراڈکٹس میں ویلیو ایڈیشن کا عنصر زیادہ سے زیادہ غالب آئے تاکہ پاکستانی پراڈکٹس بین الاقوامی مقابلے میں نمایاں مقام حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل فیشن نت نئے بلندیوں اور معیار کو چھو رہا ہے اور جب تک ہم اس معیار کے مطابق پراڈکٹس تیار نہیں کریں گے تب تک پاکستانی مصنوعات کی مانگ نہیں بڑھے گی۔ ہمیں اپنی پراڈکٹس میں انفرادیت پیدا کرنا ہوگی تاکہ وہ مقابلے کی دوڑ میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں ہانگ کانگ بھی پاکستان کی طرح کم لاگت کی ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے لئے مشہور تھا لیکن پھر انہوں نے فیشن کی فیلڈ میں سرمایہ کاری کی اور آج دنیا کے بہترین برانڈز بنا رہا ہے۔ اسی طرح ترکی نے بھی اپنے پورے ٹیکسٹائل سسٹم کو تبدیل کیا اور اپنے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے پر بھرپور سرمایہ کاری کی جس سے وہاں ٹیکسٹائل پراڈکٹس میں ڈئزائننگ نے بے پناہ ترقی کی اور اب وہاں دنیا کے بہترین ٹیکسٹائل برانڈز جنم لے رہے ہیں جن کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل کمپنیوں نے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر آنکھیں بند رکھی ہیں جس وجہ سے وہ مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں ، ان کی انڈسٹری ترقی نہیں کر سکی ہے اور ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم ایک مسابقاتی دنیا میں بزنس کر رہے ہیں جس میں اگر ہم نے پرفارم نہ کیا تو ہماری شہرت صرف کم لاگت کی اشیاء فراہم کرنے والے کی رہے گی لیکن اگر ہم اپنے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کریں گے تو بہت جلد دنیا کے باقی ممالک کی طرح ٹیکسٹائل کی پراڈکٹس میں نت نئے برانڈز ڈویلپ کرکے دنیا میں نام بنالیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پریگمیا گزشتہ سات برسوں سے انٹرنیشل اپیرل فیڈریشن کا رکن ہے ۔ ان کے اصرار پر فیڈریشن نے سیالکوٹ میں اپنا ریجنل آفس کھولا ہے جہاں پر ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں فیڈریشن کی جانب سے کھولا جانے والا یہ پہلا آفس ہے ۔ اس آفس میں مارکیٹ انٹری ڈیسک، ممبر بینیفٹس ڈیسک اور ٹریڈ فیئر ڈیسک ک قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ ان تمام ڈیسکوں کا مقصد پاکستانی ایکسپورٹرز کو دنیا کے بہترین لوگوں کے ساتھ جوڑنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2005کے بعد سے ٹیکسٹائل کے شعبے میں مقابلے کی دوڑ لگ گئی ہے کیونکہ فری مارکیٹ اکانومی کے تصور نے پورے شعبے کی ہیئت کو تبدیل کردیا ہے۔ اسی طرح2009سے اپیرل کے شعبے میں دو سے تین فیصدی کمی واقع ہوئی ہے جس کا سبب بین الاقوامی مانگ میں کمی ہے ، خاص طور پر 2016کا سال اس حوالے سے انتہائی مشکل سال تھا ۔ مکنزی اور بزنس آف فیشن کی ویب سائٹ کے سروے کے تحت پہلا گلوبل فیشن سروے کا انعقاد کیا گیا جس کے مطابق اپیرل کے شعبے میں غیر یقینی صورت حال کا راج رہا ، نت نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کئی قسم کے چیلنج درپیش رہے جس نے کاروباری بڑھوتی مشکلات کا شکار رہی۔
انہوں نے بتایا کہ پریگمیا پاکستان میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں مختلف مہارتوں کو فروغ دینے کے لئے فنی مہارت کے اداروں کے قیام کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتا رہا ہے تاکہ پاکستانی لیبر کو جدید خطوط پر تربیت دے کر پاکستانی پراڈکٹس کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا جا سکے۔ انہوں نے حال ہی میں سیالکوٹ میں 12کروڑ سے زائد کی لاگت سے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیا ہے تاکہ صنعتی مزدوروں کی تربیت کا اہتمام کیا جا سکے اور سٹچنگ، پیٹرن ڈیزائننگ، کوالٹی کنٹرول، انسپکشن اور جدید سلائی مشینوں پر مزدوروں کی مہارتوں کو نکھارا جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زوردیا کہ ٹیکسٹال کی صنعت بہت پھیلی ہوئی ہے اور اس کی کئی جہتیں ہیں جن کو باہم مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں بین الاقوامی مقابلے کے لئے تیار کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے کی مختلف ایسو سی ایشنوں کو آپس میں تعاون کو فروغ دینا چاہئے ، ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے تاکہ وہ ایک دوسرے کے مسائل اور صلاحیتوں سے آگاہ ہو سکیں کیونکہ تیزی سے بدلتی دنیا کے رجحانات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم جزیروں میں علیحدہ علیحدہ رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر دنیا کو ایسی پراڈکٹس دیں جو ان کی ضروریات کے عین مطابق ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اس کی ایکسپورٹس میں اضافے سے جڑی ہوئی ہے اور جب تک حکومت اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دے گی تب تک صورت حال میں بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے وزارت ٹیکسٹائل پر بھی زور دیا کہ وہ مختلف ایسوسی ایشنوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرے تاکہ ایک ایسی جامع اور مربوط پالیسی وضع کی جاسکے جس میں ہر سٹیک ہولڈر کی ضروریات پوری ہوں اور پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ترقی کے یکساں مواقع ملیں۔