افسروں کے تبادلے: اصلاح احوال کا حل نہیں
پچھلے دنوں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں انتظامیہ، پولیس اور دیگر محکموں میں بڑے پیمانے پر تبادلے کئے گئے ہیں۔ان تبادلوں کو حتمی شکل دینے کے لئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ایک سے زیادہ مرتبہ وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقاتیں کیں،پھر تبادلوں کا ایک سونامی آگیا جو انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب اور چیف سیکرٹری کی سطح کی بڑی پوسٹوں سے لے کر گزیٹیڈ افسروں کی سطح تک سب کو بہا کر لے گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کے پس منظر میں کئی محرکات بتائے جاتے ہیں،مگر سب سے بڑی اور ٹھوس وجہ یہ ٹھہری کہ تبدیل کئے جانے والے ملازمین اپنے اپنے عہدوں پر کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے مخلص نہیں تھے، بلکہ اس کے لئے سدراہ تھے کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو کرنا چاہتی تھی، یہ ملازمین، بڑے یا چھوٹے،ایسا نہیں کر پا رہے تھے اور مبینہ طور پر رکاوٹ تھے، جو ان کے تبادلوں کا باعث بنا۔ تبادلے سرکاری ملازمتوں میں ہوتے ہی رہتے ہیں اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ معمول کا ایک حصہ ہیں، لیکن ایک دم سے اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والے تبادلے ”ٹاک آف دی عوام“ بن جاتے ہیں، عوام میں اس حوالے سے اضطراب اور تجسس کی لہر کا آنا ایک قدرتی امر ہے اور عوام کی یہ کیفیت صرف اسی صورت میں دور ہوتی کہ انہیں اعتماد میں لے کر ان تبادلوں کی ٹھوس وجوہات بتائی جاتیں، مگر حکومت نے اسے درخوراعتنا نہیں سمجھا۔
اب پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان، جبکہ آئی جی پنجاب پولیس غلام دستگیر ہیں۔ ہر دو اعلیٰ افسروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے اپنے محکموں کے ماہر اور اچھی شہرت رکھنے والے شمار کیے جاتے ہیں۔ آئی جی پنجاب پولیس نے آتے ہی پنجاب کے تقریباً آدھے پولیس افسروں کے تبادلے کر دئیے ہیں، جن میں چار ریجنل پولیس آفیسرز لاہور کے کیپٹل سٹی پولیس آفیسر اور 19 ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز شامل ہیں۔ جن میں رحیم یار خان کے ڈی پی او امیر تیمور بھی شامل ہیں جو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے عزیز ہیں۔ ان کا تبادلہ بھی بعض حلقوں میں بعض وجوہات کی بنا پر موضوع گفتگو رہا، جبکہ گریڈ 19اور 20 کے اٹھارہ پولیس افسروں کی خدمات اسلام آباد کے حوالے کردی گئی ہیں۔ بعینہ ہی انتظامیہ میں بھی تھوک کے بھاؤ سے تبادلے کئے گئے ہیں، جن میں 31سیکرٹریز، جن میں چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ کے علاوہ متعدد کمشنرز اور ڈیڑھ درجن سے زیادہ ڈپٹی کمشنرز شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے پندرہ ماہ کے اقتدار میں متعدد بار اعلیٰ انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلے کئے گئے ہیں جو لمحہء فکریہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث ایسا ہورہا ہے؟
اتنے بڑے پیمانے پر تبادلوں کے سلسلے میں ان افسروں کو جو مراعات حاصل ہیں، ان میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو یقینا قومی خزانے کا ضیاع ہے، اگر یہ افسر واقعی نااہل ہیں اور اپنے فرائض کما حقہ انجام نہیں دے سکتے تو انہیں سروسز میں رکھنا کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ نااہل جہاں بھی ہوگا، وہ نااہل ہی رہے گا،تبادلے اس کا حل نہیں اور اگر ان تبادلوں کی وجہ کوئی اور ہے تو حکومت نہ صرف ان ملازمین، بلکہ عوام کو بھی اعتماد میں لے۔ بصورت دیگر ان تبادلوں کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اس سے غیر ضروری اور بلا وجہ تبدیل کئے جانے والے افسر دل جمعی سے اپنے فرائض انجام نہیں دے سکیں گے،جس سے ان کی کارکردگی پر خاصا اثر پڑے گا،اگر یہ تبادلے سیاسی وابستگیوں کی بنا ء پر کئے گئے ہیں تو وہ بھی بتایا جائے۔ بعض حلقوں میں مبینہ طور پر یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ان افسروں سے کام لینا نہیں آیا جس کی وجہ وہ آئے دن پنجاب میں اعلیٰ افسروں کے ہونے والے تبادلے بتاتے ہیں۔ بہر حال وجہ کوئی بھی رہی ہو، ایسا ہونا نہیں چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ انتظامیہ اور پولیس افسروں کی ہمارے معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ تربیت کا اہتمام کریں،انہیں ذہنی اور دلی طور پر صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنائیں اور انہیں عوامی خدمات سے بھر پور انداز میں روشناس کرائیں،افسروں اور عوام میں حائل خلیج کو دور کریں اور ان تک عوام کی رسائی کو ممکن اور سہل بنائیں۔