آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں اگرچہ توسیع ہو گئی ہے،لیکن سپریم کورٹ نے اس حوالے سے گیند حکومت اور پارلیمینٹ کے کورٹ میں ڈال دی ہے کہ اس اہم ترین ایشو پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی یا مطلوبہ شرائط و ضوابط کی منظوری دی جائے۔یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عملی طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع مل چکی ہے تاہم قانونی تقاضوں کی شرط محض ایک تکنیکی مسئلہ ہے،جسے حل کرنا حکومت اور پارلیمینٹ کی آئینی ذمہ داری ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے عمل پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسا حکم نامہ جاری نہیں کیا کہ اداروں میں ٹھن جائے یا پھرکوئی بحران پیدا ہو جائے،لیکن سپریم کورٹ نے اس ضمن میں حکومتی اقدمات میں پائے جانے والے سقم کی نشاندہی ضرور کی۔سپریم کورٹ نے واضح کی کہ پاکستان کی تاریخ میں اس اہم ترین معاملہ پرکوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی گئی اور ماضی میں بھی آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر روایات کا ہی سہارا لیا گیا۔درحقیقت سپریم کورٹ نے پاکستان کی سلامتی کے اہم ترین قومی ادارے میں اعلیٰ ترین سطح پر قیادت میں تبدیلی کے میکانزم کو قانونی و آئینی شکل دینے کے لئے احکامات دیئے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے ایشو پر سماعت کے دوران اداروں نے بردباری کا مظاہرہ کیا اورکسی موقع پر بدمزگی کا مظاہرہ نہیں ہوا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بعد مصحف ایئر بیس کا دورہ کیا اور ائر چیف مارشل مجاہد انور کے ہمراہ دو الگ الگ ایف 16طیاروں میں بیٹھ کر فضائیہ کی جنگی مشقوں میں حصہ لے کر قوم کے سامنے واضح کیاکہ وہ پوری طرح جسمانی لحاظ سے چوکس اور فٹ ہیں،کیونکہ ایف16جیسے جنگی طیارے میں پرواز کے لئے اعلیٰ جسمانی فٹنس درکار ہوتی ہے اور اب حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طرز اور مقاصد کے ساتھ کھیلیں گی۔اگرچہ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کو جس کڑے احتساب کا سامنا ہے، لگتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ دم خم نہیں رہا کہ وہ توسیع کے معاملے پر کوئی انتہائی سیاست کر سکیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دیگر اپوزیشن جماعتیں اس ایشو پر کسی نہ کسی انداز میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے یا زچ کرنے کی کوشش کریں گی۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے معاملے میں آڑے نہیں آئیں گی، لیکن حکومت پر زوردار تنقید کریں گی۔درحقیقت سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے کو پارلیمینٹ میں بھیجنے سے پارلیمینٹ بھی مضبوط ہوئی ہے اور اپوزیشن کو بھی نہایت تقویت ملی ہے،اپوزیشن اب اس موقع پر زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس اہم ایشو پر حکومت سے کیا سودے بازی کرتی ہیں،جبکہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپوزیشن کے معاملہ میں بظاہر اپنا رویہ اور موقف تبدیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کو مسلسل ”مافیاز“ کے طور پر گردان رہے ہیں،حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی غرض سے بھجوانے کی اجازت دی، لیکن اس ضمن میں انہوں نے ڈاکٹروں کا جو بورڈ ترتیب دیا تھا اس کے فیصلے پر شک و شبہ کا اظہار نواز شریف کے بیرون ملک رخصتی کے بعد خود ہی کر رہے ہیں، پارلیمینٹ میں حکومتی رویہ کے باعث اپوزیشن کسی ایشو یا قانو سازی پر اتفاق رائے کے لئے آمادہ نظر نہیں آ رہی،حکومت اور اپوزیشن کے مابین فصلے مسلسل بڑھ رہے ہیں،جس کی وجہ سے پارلیمینٹ میں حکومت موثر قانون سازی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔اس محاذ آرائی کے ماحول میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے کو پارلیمینٹ میں بھیجنے سے حکومتی چیلنج میں اضافہ نظر آتا ہے۔حکومت کے لئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی و آئینی شکل دینا ناممکن تو نہیں،لیکن کٹھن ضرور ہے، حکومت اِس حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ایک طرف حکومت نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مبنی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے یہ کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر مذاکرات کر رہی ہے،لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کمیٹی اپوزیشن کی غصیلی جماعتوں کو ان کی حمایت کے بدلہ میں کیا پیشکش کر سکتی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری تو اس حد تک مطالبہ کر رہے ہیں کہ آرمی چیف کے لئے آئینی ترمیم سے قبل نیا وزیراعظم لانا ہو گا۔دارالحکومت میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اب سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی طبی بنیادوں پر ضمانت مل سکتی ہے،جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز شریف کو بھی انہی حالات کے پیش نظر کوئی مزید ریلیف مل سکتا ہے، جبکہ بعض حکومتی واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایکٹ آف پارلیمینٹ میں تبدیلی کی آپشن کو بھی بروئے کار لانے کی تیاری مکمل کر رکھی ہے۔بعض حکومتی زعماء کی رائے ہے کہ یہ معاملہ آئینی ترمیم کے بغیر ہی سلجھایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے آج شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی خوب ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی توسیع کیس کے بعد اب ایک نئے سیاسی مرحلے میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں،جبکہ معیشت کے حوالے سے اگرچہ عوام کی سطح پر تو نہیں،لیکن موٹے موٹے معاشی خدوخال میں بہتری کے آثار آن لگے ہیں، اس لئے وزیراعظم عمران خان اب نسبتاً زیادہ پُراعتماد انداز میں فیصلے کرنے لگے ہیں،اس ضمن میں انہوں نے وفاقی سطح پر تو پنجاب میں بڑے پیمانے پر بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ بالخصوص پنجاب میں اگرچہ انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو برقرار رکھنے کا فیصلہ تو کیا ہے،لیکن انہوں نے پنجاب میں بیورو کریسی میں تمام تر تبدیلیاں اپنی مرضی سے کی ہیں۔جب وہ اسلام آباد سے لاہور کے دورہ پرگئے تو یہیں سے بیورو کریسی کی تقرریوں اور تبادلوں کی فہرست لے گئے تھے،جبکہ وزیراعظم عمران نے پنجاب بیورو کریسی سے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ اپنے فرائض سیاسی وابستگی یا سیاسی دباؤ سے بالاتر ہوکر انجام دیں اور وزیراعظم براہ راست ان سے باز پُرس کیا کریں گے،جبکہ ان حالیہ تبادلوں کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت کے انتہائی منظورِ نظر اور قابل ِ بھروسہ افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا ہے، کیونکہ ایسے افسران کا خاصہ ہے کہ یہ سب کے سب انتہائی قابل ہیں۔ تاہم سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی ریٹائرمنٹ سے18روز قبل انہیں ہٹائے جانے پر تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ اچھی معاشی خبروں میں عالمی معاشی درجہ بندی کے ادارے موڈیز کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ منفی سے مستحکم ہونے سے اچھے اثرات مرتب ہونے کی امید ہے، سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری آ رہی ہے، جبکہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی سے خسارہ بھی قدرے کم ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا یہ بہتری عام آدمی پر بھی اثر انداز ہو گی،کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ”میکرو اکنامکس“ میں تو بہتری آ جاتی ہے،لیکن مائیکرو اکنامکس میں بہتری کے لئے مختلف پالیسی اپنانی پڑتی ہے۔ خارجہ امور کے محاذ پر پاکستان سے افریقی ممالک سے تجارتی تعاون بڑھانے کی غرض سے ایک دو روزہ کانفرنس منعقد کی،جس میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں افریقہ کے خطے کو خصوصی اہمیت دینے کے لئے ایک حکمت عملی ترتیب دی اس کی اہمیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔