" جب عمران خان پرتنقید ہوتی ہے تو ان کے حامی کہتے ہیں کہ ان کو پانچ سال کا مینڈیٹ ہے لیکن عثمان بزدار کی تبدیلی کی بات یوں کرتے ہیں جس طرح ۔ ۔ ۔ "
لاہور (کالم، حامد ولید) وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارمیں فرق صرف تقریر بازی کا ہے، اگر عثمان بزدار کو بھی 126دن دھرنے سے روزانہ خطاب کا موقع ملتا تو وہ بھی لمبی لمبی چھوڑنے کے ماہر بن جاتے اور آج وزیر اعظم عمران خان کی طرح ان کا بھی نام ہوتا، وگرنہ دیکھا جائے تو خود وزیر اعظم عمران خان نے کون سا اس طرح دن رات کام کرنے کے ریکارڈ قائم کئے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو شرما سکیں جو کام کی دھن میں دن رات ایک کئے ہوتے تھے، ان سے کون سا بیوروکریسی اس طرح ڈرتی ہے جس طرح شہباز شریف کے نام سے کانپتی تھی، وہ کون سے پراجیکٹ پر صبح پانچ بجے معائنے کے لئے پہنچے ہیں اور انہوں نے کس دن بیوروکریسی کی صبح آٹھ بجے سیکریٹریٹ میں میٹنگ لی ہے۔
ذرا چشم تصور وا کیجئے اور سوچئے کہ اگر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہوتے، فر فر انگریزی مار سکتے اور ہر وقت سوٹڈ بوٹڈ رہنے کے عادی ہوتے تو آج ان کا وہ امیج ہوتا، جو ہے؟ دوسری جانب اگر وزیر اعظم عمران خان کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے علاقے تونسہ شریف سے ہوتا، وہ مقامی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی پیداوار ہوتے، باپ داد ا کی سیاست کی بنا پر ایم پی اے ہوتے تو اپنی تمام تر وجاہت کے باوجود ان کا حال کراچی کے اس پٹھان چائے والے لڑکے سے زیادہ کیاحیثیت ہوتی جو اپنی بھرپور خوبروئی کے باوجود ڈھنگ کا ایک لفظ ادا کرنے کے لائق نہ تھا اور جو کوشش کے باوجود ایک اچھا ماڈل نہ بن سکا!
یوں بھی پوچھنے والے یہ نہیں پوچھتے کہ عثمان بزدار کیا کر رہے ہیں بلکہ ان کا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کیوں لگایا گیا ہے؟ شروع میں جب وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو بتایا تھا کہ وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگا کر جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ان کے چاہنے والوں نے خوب واہ واہ کی تھی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سست رفتاری کا بھرم رہ جاتا اگر مرکز میں خود وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ڈیلیور کر رہی ہوتی جہاں چھے ماہ بعد ہی انہوں نے اپنے اوپنر بیٹسمین اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ جو پرفارم نہیں کرے گا میں اس کو اپنی ٹیم میں نہیں رکھوں گا۔
یہی نہیں بلکہ مرکزی بیوروکریسی پر خود ان کی اپنی گرفت اتنی کمزور تھی کہ ایک مرحلے پر وفاقی سیکرٹریوں کوریڈ لیٹر جاری کرنے کی خبریں تک اخبارات کی زینت بنی تھیں، اسی طرح رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے موقع پر وفاقی وزیر شہر یار آفریدی نے اللہ کی قسم کھا کھا کر جو جو جھوٹ باندھے اور اس سے قبل انہوں نے جس طرح بیان دے کر اسلام آباد کے سکولوں کالجوں میں 80فیصد بچیاں آئس کا نشہ کرتی ہیں لوگوں کی نیندیں اڑادی تھیں، پھر فواد چودھری نے 55روپے فی لٹر کے خرچے سے وزیر اعظم کا ہیلی کاپٹر اڑا دیا تھا، زرتاج گل نے بارشوں کا سبب عمران خان کے وزیر اعظم بننے کو قرار دے دیا تھا، فردوس عاشق اعوان نے زلزلے کا سبب تبدیلی کو قرار دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 17روپے کلو ٹماٹر کی قیمت بتادی تھی تو چودھری غلام سرور نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت کو ڈیل قرار دے کر عدالت کی کاروائیوں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا تھا اور ہائیٹ آف ڈیلائٹ تو یہ تھی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقعوں پر نااہلیوں کا پہاڑ کھڑا کردیا تھا!......
اتنا کچھ کرچکنے کے بعد جب وزیر اعظم عمران خان غیر متوقع طور پر پنجاب میں چوتھی مرتبہ بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں کرنے لگے تو تاثر یہ پیدا ہوگیاکہ گویا سارا قصور ہی پنجاب کا ہے اور اگر یہاں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی انتظامیہ ڈیلیور کرنا شروع کردے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب پانی یوں نیچی جگہ کی جانب بہا تو ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت کی نااہلیاں چھپ گئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آخر عثمان بزدار کوکیوں نہیں ہٹایا جا رہا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ویسی ہی تنقید خود وزیر اعظم عمران خان پر ہوتی ہے تو وہاں ان کے حامی فوری طور پر کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ان کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہے، انہیں تبدیل نہیں کرنا چاہئے لیکن عثمان بزدار کی تبدیلی کی بات یوں کرتے ہیں جس طرح غیر محسوس طریقے سے بوفے کھانے کے دوران پلیٹ بدلی جاتی ہے!
وزیر اعظم عمران خان سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو شوباز شریف کہا کرتے تھے،خواجہ آصف کو رنگ باز قرار دیتے تھے، انہوں نے ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی کو ریلو کٹا کہا تھا، کوئی ہے جو بتلائے کہ وہ نجی محفلوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کوکیا کہتے ہوں گے!خیر وہ جو کہتے ہوں،کہتے ہوں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ضرور دل ہی دل میں نوشی گیلانی کے یہ اشعار دہراتے ہوں گے کہ
تم نے تو کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
مجھ کو تو یہ بھی کہنے کی مہلت نہیں ملی
پھر اختلاف رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بیزار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب کچھ ملا سکون کی دولت نہیں ملی
.
نوٹ:یہ کالم نویس کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔