عبدالقادر حسن (ایک غیر سیاسی مشاہدہ)

عبدالقادر حسن (ایک غیر سیاسی مشاہدہ)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


محترم عبدالقادر حسن مرحوم ایک منفرد قلم کار اور کالم نگار تھے، جن سے شناسائی بحیثیت ایک قاری کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اْن سے با ضابطہ ملاقاتوں کا آغاز 1985 میں کراچی سے لاہور  تبادلہ کے بعد،پی۔آئی۔ اے کے افسر تعلقاتِ عامہ کی حیثیت سے ہوا اور کئی برس بعد اسلام آباد میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہا۔ وہ اسلام آباد آتے یا میرا لاہور جانا ہوتا، ملاقات ہوجاتی۔ اکثر فون پر رابطہ رہتا کہ اْن کی گفتگو میں بھی اْن کے کالموں جیسی شگفتگی اور چاشنی ہوتی۔ رکھ رکھاؤ اور شفقت اُن کی شخصیت کا خا صہ تھا۔ کبھی کبھار مؤدبانہ نوک جھونک بھی ہو جاتی، مگر اُن کی مْسکراہٹ اور اعلیٰ ظرفی میں فرق نہ آتا- وہ بلاشبہ ایک بڑے انسان تھے۔
تعلقاتِ عامہ کا شعبہ خیر سگالی سے زیادہ نمائشی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا۔ لاہور کے الحمراء ہال میں قالینوں کی سالانہ نمائش تھی، جس میں صدر جنرل ضیاء  الحق مہمانِ خصوصی تھے۔ہال کے باہر روزنامہ ”وفاق“ کے ایڈیٹر، مصطفی صادق مرحوم کے ساتھ گفتگو جاری تھی، اتنے میں امروز کے چیف ایڈیٹر، عبدالقادر حسن صاحب بھی تشریف لے آئے۔ سلام کے بعد مَیں نے کہا کہ امروز جاتا ہوں تو آپ کے دفتر بھی چلا جاتا ہوں مگر  ملاقات نہیں ہو رہی۔ اس پر اْنہوں نے مْسکراتے ہوئے جواب دیا۔ آپ، پی۔آر والے گولیاں بہت دیتے ہو! اس پر جناب مصطفی صادق نے گرہ لگائی کہ آپ کے آنے سے پہلے میں بھی طارق کو یہی کہہ رہا تھا۔“قادر صاحب! میں اُن پی۔آر والوں میں سے نہیں ہوں جو گولیاں دیتے ہیں۔ میں تو پی۔آر بھی پیار سے کرتا ہوں ”،میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا۔ سب ہنس دئیے شاید“منظور تھا پردہ میرا۔“ اتنے میں صدر صاحب تشریف لے آئے۔


اب اس تقریب میں شرکت کا بھی ذرا سْن لیجئے جو میرے علم میں نہ تھی۔ جنرل منیجر، پی۔آئی۔اے لاہور، کے۔ڈی۔ رانا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم میرے ساتھ کارپٹ ایگزیبیشن میں جا رہے ہو؟ مجھے دعوت نامہ نہیں ملا، میں نے اُنہیں بتایا۔ رانا صاحب نے کارگو منیجر، سردار اسلم صاحب کو بْلوایا اور کہا کہ اگر یہ نہیں جاسکتے تو میں بھی نہیں جاؤں گا۔ صدر صاحب کی وجہ سے سیکیورٹی سخت تھی تاہم کارڈ مل گیا اور ایک کارگو افسر نے ساتھ جا کر مجھے اندر پہنچا دیا، جہاں سینئر صحافیوں سے ملاقات ہوئی اور پی۔آئی۔اے انفارمیشن ڈیسک کی میڈیا کوریج بھی جو مندوبین کی سہولت کے لئے لگایا جاتا تھا۔صدر ضیاء الحق نے بھی وہاں چند لمحے رُک کر گفتگو فرمائی۔ 


پی۔ٹی۔وی کے نیوز ایڈیٹر، خالد محمود ربانی نے بھی خبرنامہ میں قومی فضائی کمپنی کے انفارمیشن ڈیسک کا حوالہ دے دیا۔ 
عبدالقادر حسن مرحوم ہمیشہ ایئر مارشل نور خان اور پی۔آئی۔اے کا ذکر تعریفی انداز میں کرتے کہ وہ قومی اداروں کے استحکام کو مْلک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اْن کے کالم اُن کی اس عوامی فکر اور سوچ کا مظہر ہیں۔ وہ اپنی بے لاگ آرا کا بلا تامل اظہار کرتے اور قومی فلاح و بہبود کو مقدم جانتے۔


ایک مرتبہ اپنے ایک کالم میں پی۔آئی۔اے کی سروس کا ذکر کرتے ہوئے، تیسرے درجہ کی قرار دیا،جس کا جواب دینا غالباً مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اْن ہی دنوں، ایک شام جب میں اسلام آباد ہوٹل جہاں جانا معمول تھا، میں داخل ہوا تو جناب عبدالقادر حسن کو سامنے کھڑا پایا۔ میں آگے بڑھا تو پی۔آئی۔ڈی کے پروٹوکول افسر،ادریس نے آگے بڑھ کر اُن سے کہا، سر آپ انہیں جانتے ہیں۔ وہ فرمانے لگے، انہیں کون نہیں جانتا؟ میں نے ادب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا“تھرڈ کلاس ائیرلائن کا تھرڈ کلاس پی۔آر۔او”۔ گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے، وہ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ مرحوم بڑے وسیع القاب انسان تھے اور پیار کرنے والوں کی جسارتوں کو معاف کردیا کرتے تھے۔  
اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائیں اور اْنہیں اپنی خصوصی رحمت سے نوازیں۔آمین)۔ ”عجب آزاد مرد تھا“۔

مزید :

رائے -کالم -