کورونا سے ڈرا جائے،لڑا جائے یا مرا جائے؟
کورونا کی پہلی لہر کے دوران تو وزیراعظم سے لے کر پوری حکومت ہمیں بتا رہی تھی کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، خود وزیراعظم اسے محض ایک فلو قرار دے کر عوام سے کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے اور سرکاری میڈیاسمیت کئی نجی ٹی وی چینلز دن رات کورونا سے لڑنے کی ترغیب دیتے پائے جاتے تھے لیکن جب سے کورونا کی دوسری لہر حملہ آور ہوئی ہے، وزیراعظم عمران خان سے لے کر پوری حکومت ہمیں کورونا سے لڑنے کی بجائے ڈرنے کی ترغیب دے رہی ہے اور اب سرکای میڈیا سے لے کر پرائیویٹ چینلوں کی اکثریت عوام کو ڈرانے پر تلی ہوئی ہے۔کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا! لڑنے کا طریقہ تو یہ تھا کہ عوام گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اور ملک بھر میں لاک ڈاون لگادیا گیا تھا ڈرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پورے ملک میں سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن پی ڈی ایم کے جلسوں کو روکا جا رہا ہے۔ کورونا سے زیادہ کورونا کا خوف پھیلانے کا جو کاروبار حکومت نے شروع کیا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری پی ڈی ایم پر ڈالی جا رہی ہے اور بار بار کہا جا رہا ہے کہ اگر پی ڈی ایم اپنے جلسے ملتوی کردے تو کورونا کے پھیلاؤ سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا نوے فیصد میڈیا یرغمال ہو چکا ہے اور وہی کچھ کہتا اور سناتا پایا جاتا ہے جو سرکار کہنا چاہتی ہے، وزیراعظم مقبول سیاسی جماعتوں کی قیادت کو کرپشن کے نام پر رسوا کرنے کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اس وقت یہ پراپیگنڈہ اس شدت کے ساتھ کیا گیا تھا، ان کے گھوڑوں کو سیب کے مربعے کھلانے کی باتیں اس قدر عام ہوئی تھیں کہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ووٹ ڈالنے والے دن گھروں میں بیٹھنا پسند کیا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ 2018ء کے انتخابات تک پیپلز پارٹی کے لئے انتخابی جلسوں میں آصف زرداری کی تصویر لگا کر عوام کو اکٹھا کرنا مشکل ہوتا تھا اور بتایا جاتا تھا کہ لوگ آصف زرداری کو پسند نہیں کرتے۔نتیجہ یہ نکلا کہ سنٹرل پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا اور وہ جنوبی پنجاب میں سات نشستوں کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا تھا کہ آصف زرداری جان بوجھ کر بلاول بھٹو کو آگے نہیں آنے دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پارٹی پر انہی کا یا ان کی بہن فریال تالپور کا کنٹرول رہے۔ اس پر بھی پیپلز پارٹی کی خوب گت بنائی گئی اور بالآخر بلاول بھٹو کو بھرپور طریقے سے سرگرم ہونا پڑا،لیکن سچ پوچھئے تو ملتان والے جلسے سے جس طرح باپ بیٹا دونوں غائب ہوئے اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے میں اگر مولانا فضل الرحمٰن کی انٹری نہ ہوتی تو جلسہ شاید ناکام ہو جاتا۔
کرپشن کے نام پر اب ایسا ہی ایک کھیل نواز شریف کے خلاف بھی رچایا جا رہا ہے اور کرپٹ، چور اور ڈاکو کہہ کہہ کر عوام میں ایک تاثر کو گہر ا کیا جا رہا ہے کہ ان سے جان چھڑوالینے میں ہی بہتری ہے۔ وہ تو بھلا ہو عمران خان کی بری کارکردگی کا کہ عوام کے پاس ایک تقابلی جائزے کا موقع موجود ہے اور وہ بھرپور پراپیگنڈہ ہونے کے باوجود جب موجودہ حکومت کا سابقہ حکومت سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو سارے پراپیگنڈے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو بھی اسی طرح بے وقعت کردے گی جس طرح آصف زرداری کو کردیا گیا ہے؟ اس سوال کا فوری جواب تو یہ ہے کہ ابھی تک تو اسٹیبلشمنٹ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ جب پانامہ مقدمے میں اقامہ رکھنے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا تو انہوں نے جی ٹی روڈ پر ’مجھے کیوں نکالا‘ مارچ شروع کردیا اور کھلے بندوں عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور جب معزز ججوں نے اپنے فیصلوں میں اس شعر کا سہارا لیا کہ
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر مجھے یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
تو اس پر نون لیگ نے جوابی پریس کانفرنس میں ترکی بہ ترکی شعر کو تھوڑا سا بدل کر جب یہ جواب دیا کہ
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر مجھے یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری منصفی کا سوال ہے
تو ان کے خلاف اس تاثر کی نفی بھی ہوگئی جو عدلیہ جیسے معزز ادارے کی جانب سے ان کے خلاف چلائے جانے والے کرپٹ پراپیگنڈے کا مقصد تھا۔اس زمانے میں جس چابکدستی سے نواز شریف کی میڈیا ٹیم نے اسٹیبلشمنٹ کے کرپٹ پراپیگنڈے کا جواب دیا اسی کے سبب تمام تر پابندیوں اور خود نواز شریف اور مریم نواز کے پابند سلاسل ہونے کے باوجود پنجاب میں نون لیگ جم کر کھڑی رہی اور انتخابات میں دوسری اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں پاکستان پیپلز پارٹی کرپشن والے پراپیگنڈے کی وجہ سے اپنی عوامی حمائت کھو بیٹھی اور کیوں نون لیگ اپنے آپ کو بچا نے میں کامیاب ہوئی ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ کیوں نکل آئی تھی اور نون لیگ سے شین لیگ کیونکر نہیں نکل پا رہی ہے؟پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت کیونکر بیساکھیوں کی مرہون منت دکھائی دیتی ہے اور پنجاب میں نون لیگ کی اپوزیشن بنچوں پر موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے لئے خطرہ کیوں بنی ہوئی ہے؟ جواب اگلے سال میں مل جا ئے گا۔ سال رواں کی کہانی تو یہی ہے کہ مریم نواز کی دھواں دھار تقریر کے دوران گودام میں آگ لگا کر میڈیا کی توجہ اس طرف کی جائے گی اور پی ڈی ایم کے جلسے کی کامیابی کی بحث کو اسحٰق ڈار کے بی بی سی کو دیئے جانے انٹرویو کو متنازعہ بنا کر دبا دیا جائے گا اور یرغما ل میڈیا ساری بحث کا رخ اس طرف موڑ دے گا۔