جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات، نئے سپہ سالار کی آمد، چیلنجز اور قومی قیادت کی ذمہ داریاں
وطن عزیز پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں سپہ سالار قوم کی تقرری کے حوالے سے اس طرح کی ہیجانی کیفیت کبھی نہیں دیکھنے میں آئی جس طرح کی کیفیت گذشتہ چند ماہ کے دوران پیدا کی گئی ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہونے جا رہے تھے اور ان کی جگہ نئے سپہ سالار کا تقرر ہونا تھا ۔ جنرل باجوہ ماہ اگست میں واضح کر چکے تھے کہ وہ اب توسیع نہیں لیں گے اور نہ ہی ان سے اس حوالہ سے کوئی بات کرے، لیکن اس کے باوجود ایسا لگ رہا تھا کہ نئے سپہ سالار یا توسیع کا معاملہ سوشل میڈیا پر ہی طے ہونا ہے۔ اس تقرری سے قبل ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی جس میں افواہ سازی ، بے بنیاد پراپیگنڈہ کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ وقت مقررہ پر وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر اور نئے جوائنٹ چیف ساحر شمشاد مرزا کا تقرر کر دیا۔
سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں بہت ساری چیزوں سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے اس دور میں ایسے بہت سارے اچھے امور بھی سر انجام دئیے گئے جو قابل فخر اور قابل تعریف ہیں۔ ان میں پیغام پاکستان جیسی دستاویزہے جس کو آئین پاکستان اور دستور پاکستان کے بعد سب سے متفقہ دستاویز کہا جا رہا ہے ۔اس دستاویز کو ایک میثاق کی شکل دی گئی ہے جو ملک کے تمام مذہبی ، سیاسی ، قائدین اور علماء و مشائخ کے درمیان انتہا پسندی ، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کیلئے کیا گیا ہے۔
پیغام پاکستان مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس کی تحسین پوری دنیا میں کی جا رہی ہے اور اس پر امام کعبہ ، شیخ الازہر سمیت عالم اسلام کے اہم ترین قائدین نہ صرف دستخط کر چکے ہیں بلکہ اس کی تحسین بھی کر چکے ہیں۔
پیغام پاکستان کے میثاق کی تکمیل میں جس طرح جنرل قمرجاوید باجوہ نے صبح وشام محنت کی ، علماء و مشائخ او ر مذہبی قائدین سے کئی کئی گھنٹوں کی جو نشستیں کیں وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پیغام پاکستان جیسی دستاویز کے بعد الحمدللہ پاکستان کے حوالے سے عالمی دنیا کا مؤقف تبدیل ہوا ، وہ جو پاکستان پر دہشت گردی اور انتہاپسندی پھیلانے کے الزامات لگاتے تھے ، وہ پاکستانی فوج اور سلامتی کے اداروں کی امن کی خدمات کے معترف ہوئے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کو FATF (فیٹف )کی گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے جس طرح جی ایچ کیو میں ایک سیل قائم کیا اور اس کے نتیجہ میں الحمدللہ آج پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
مدارس عربیہ میں جدید تعلیم اور خارجہ امور کے حوالے سے جنرل قمرجاوید باجوہ کا کردار اور محنت فراموش نہیں کی جا سکتی ۔
یہ بات درست ہے کہ یہ تمام اعمال سیاسی قیادت کے کرنے کے تھے لیکن جب سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو پھر کسی کو تو یہ کام کرنا تھا اور جنرل قمرجاوید باجوہ نے ملک کے اند ربین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے خارجہ امور کی اصلاح میں یہ خدمات سر انجام دیں اور اس کا اعتراف تو خود عمران خان بھی کرتے رہے ہیں لیکن چونکہ اب جنرل باجوہ رخصت ہو گئے اور عمران خان اور ان کی جماعت کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ اب جنرل باجوہ ان کیلئے کوئی مزید سہولت کاری نہیں کر سکتے تو لہذا اس بنیاد پر انہو ں نے ایک تنقیدی سلسلہ شروع کیا جو کہ افسوسناک ہے۔ غم و کرب کی بات یہی ہے کہ جب انسان منصب پر ہوتا ہے تو اس کی تعریفیں ختم نہیں ہوتیں اور جب منصب سے چلا جائے تو اس میں سب عیب نظر آنے لگتے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ایک طرف عمران خان مختلف ذرائع سے حتیٰ کہ بعض بیرونی دوستوں کے ذریعے بھی جنرل باجوہ کو توسیع دینے اور ہر طرح سے تعاون کا کہتے رہے اور دوسری طرف وہ صبح و شام ان پر تنقید کے نشتر برساتے رہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ جب ارشد شریف شہید کے قتل کے بعد ایک پلاننگ کے تحت پاکستان کی فوج ، سپہ سالار اور سلامتی کے ادارے کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے اوپر ایک مہم شروع کرنے کی پلاننگ کی گئی تو ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس پی آرلفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ آ کر پریس کانفرنس کرنی پڑی اور حقائق کو قوم کے سامنے رکھنا پڑا۔اس پریس کانفرنس میں بیان کیے گئے حقائق سے آج تک کوئی انکار نہ کر سکا ہے، ان کی یہ پریس کانفرنس اس بات کا اظہار تھی کہ جھوٹ کو اب مزید نہیں برداشت کیا جا سکتااور سچ کو سامنے لانا ضروری ہے اور جب پاکستان کی فوج اور سلامتی کے ادارے سیاست سے اپنے آپ کو علیحدہ کر چکے ہیں تو پھر صبح و شام ان پر تنقید کیوں ۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر اپنا منصب سنبھال چکے ہیں اور جو لوگ جنرل حافظ سید عاصم منیر کو جانتے ہیں وہ یہ بات بتلاتے ہیں کہ وہ ایک مکمل سپاہی اور رب کریم سے اپنا تعلق رکھنے والے انسان ہیں اور اس کی گواہی ان کی فوج کیلئے خدمات اور ان کا کردار دیتا ہے اور یہ بات بھی پاکستان کیلئے عالم اسلام میں قابل فخرہے کہ پاکستانی فوج کا سپہ سالار ایک حافظ قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی اولاد سے نسبت والا ہے۔
سپہ سالار قوم جنرل حافظ سید عاصم منیر کیلئے سب سے بڑ اچیلنج وطن عزیز پاکستان کی وہ صورتحال ہے جس میں ایک طرف پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کی قوم اور فوج کے درمیان تقسیم پیدا کرنا چاہتی ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی معاشی اور اقتصادی صورتحال ہے۔30 ملین سیلاب زدہ پاکستانی امداد کے منتظر ہیں اور افسوس کہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کی توجہ اس طرف نہیں ہے اور حکومت تنہا یہ ساری ذمہ داری ادا نہیں کر سکتی۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیلاب کے بعد مسلسل دوست ممالک سے رابطے قائم کر کے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے جو تعاون حاصل کیا وہ قابل قدر ہے اور نئے سپہ سالار بھی ان شاء اللہ اسی طرح خدمات کو سر انجام دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف خارجہ محاذ پر اپنی ٹیم کے ساتھ بہت محنت کر رہے ہیں لیکن اس میں سپہ سالار کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہندوستان ماضی کی نسبت اور خارجہ محاذ پر ہماری یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے دوست ممالک میں اپنی جگہ بنا رہا ہے اور اسی طرح ہندوستان کا کشمیر کے معاملے میں رویہ بھی تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے۔
نئے سپہ سالار نے پہلا دورہ کنٹرول لائن کا کیا ہے اور ان کے پہلے بیان نے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو واضح کر دیا ہے اور وہ تمام غلط فہمیاں اور پراپیگنڈہ دم توڑ گیا ہے جو گذشتہ چند ماہ سے کیا جا رہا تھا۔نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر کا کنٹرول لائن پر خطاب قومی امنگوں کی ترجمانی ہے۔ اسی طرح افغانستان کی صورتحال اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سیز فائر کے خاتمے کا اعلان کے بعد کی صورتحال بھی نئے سپہ سالار کے سامنے ہے۔
سیاسی میدان میں شدت اور نفرت عروج پر ہے ۔ سیاسی قوتیں آپس میں بات چیت کیلئے تیار نہیں ہیں ، بد تمیزی ، گالی گلوچ عروج پر ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے اور ایک نئی شروعات کا آغاز کیا جائے ۔ سیاسی قیادت طعنہ زنی اور نفرت اور عدم برداشت کے رویے سے باہر آئے ۔ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے اور پاکستان کا سوچے۔ پاک فوج اور سلامتی کے اداروں کے خلاف دانستہ یا نا دانستہ طور پر چلائی جانے والی مہم بند کی جائے ۔ ملک میں معاشی اقتصادی ، معاشرتی استحکام ، انتخابی اور عدالتی اصلاحات کیلئے ایک میثاق پاکستان کیا جائے۔جس کی دعوت وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں بطور قائد حزب اختلاف دی تھی۔ اگر عمران خان صاحب کا خیال ہے کہ ان کو انتخابات دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بغیر مل جائیں گے تو ان کو اس تصور سے باہر آ جانا چاہیے ۔ تحریک انصاف بلا شبہ ایک بڑی جماعت ہے لیکن پی ڈی ایم اور دیگر جماعتیں بھی پاکستان کی ہی جماعتیں ہیں ۔ الیکشن سیاسی جماعتوں نے طے کرنا ہے ، اسٹیبلشمنٹ نے نہیں اور یہ بات جتنی جلدی عمران خان اور ان کی جماعت کو سمجھ آ جائے بہتر ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو اس سارے سیاسی عمل سے علیحدہ کر چکی ہے اور اب فی الوقت عمران خان صاحب کیلئے کوئی سہولت کار بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں