جہاں تلواریں ڈرائنگ روم کی زینت بن جائیں وہاں جہاد کا ٹھیکہ ہی دینا پڑتا ہے

جہاں تلواریں ڈرائنگ روم کی زینت بن جائیں وہاں جہاد کا ٹھیکہ ہی دینا پڑتا ہے
جہاں تلواریں ڈرائنگ روم کی زینت بن جائیں وہاں جہاد کا ٹھیکہ ہی دینا پڑتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:70
مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سفر میں انہوں نے عربوں کے نظام کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ خود کوئی کام نہیں کرتے بلکہ ہر کام ٹھیکے پر دیتے ہیں۔ دفاعی نظام کے متعلق لکھتے ہیں:
 ”میں نے سوچا جہاں تلواریں اور خنجر سنہری نیاموں میں بند ہو کر ڈرائنگ روم کی زینت بن جائیں وہاں جہاد کا ٹھیکہ ہی دینا پڑتا ہے۔“
فرد پر طنز کاانداز :
یہاں تک جو بحث کی گئی ہے وہ سالک اجتماعی طورپر معاشرے کو کیسا دیکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کا انداز ہمدردانہ ہے وہ صرف معاشرے کے مضر پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لطیف انداز میں اس بدی کا احساس دلاتے ہیں اس سلسلے میں ان کا انداز تشخیصی ہے۔ مخاصمانہ یا جارحانہ نہیں۔ لیکن یہی صدیق سالک جب معاشرے سے فرد کی طرف آتے ہیں تو ان کا رویہ تکلیف دہ حد تک مختلف ہوتا ہے جب وہ کسی مخصوص شخص طبقے یا گروہ کی طرف مزاح کے پردے میں طنز کرتے ہیں تو مزاح طنز سے کوسوں پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ اس شخص پر طنز کرتے ہوئے رحم کی ذرا بھی گنجائش نہیں رکھتے اجتماع سے فرد کی طرف آتے ہوئے سالک کی مزاح نگاری کا سب سے نمایاں موضوع غربت اور امارت کا تقابل ہے۔
دولت مند طبقے سے نفرت:
اس کی جڑیں ان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ صدیق سالک کی ابتدائی زندگی بے حد غربت میں گزری بعد میں خدا نے انھیں دولت ‘ عزت ‘ شہرت سب کچھ عطا کیا۔ گویا انہوں نے غربت سے امارت کا سفر طے کیا۔ وہ یہ مرحلہ طے کرکے اخلاقی حدود سے باہر نہیں ہوئے لیکن ان کی تحریروں میں دولت مند اور نو دولیتے طبقے پر طنز بہت تلخ انداز میں ملتا ہے یہ موضوع ان کی افسانوی اور غیر افسانوی نثر میں یکساں ہے مثلاً زمبابوے کے سفر میں چراغ دین کا تعارف ہی قابل نفرین انداز میں کرایا ہے لکھتے ہیں:
”اس نے انگریزی سوٹ پہن رکھا تھا اور اوپر غالباً گنج چھپانے کے لیے جناح کیپ سجارکھی تھی مجھے اس میں کوئی کشش نظر نہ آئی -----میں اس کے ان پڑھ چہرے کو دیکھ کر کہنے ہی والا تھا کہ مجھے دوسری جنگ عظیم سے دلچسپی ہے نہ آپ کے والد ماجد کی ہجرت سے تم تو مجھے بمبئی کے بنیا لگتے ہو“
کسی شخص کے ظاہری سراپے سے نفرت کرنا جو کہ اس شخص نے خود نہیں بنایا قابل افسوس ہے۔صدیق سالک دولت اور اخلاقی تنزل کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اپنی تحریروں میں بیشتر وہ دولت مند شخص یا طبقے کے ساتھ اخلاقی بے راہ روی کا بھی ذکر کرتے ہیں مثلاً چراغ دین اپنی بیٹیوں کا تعارف یوں کراتا ہے:
 ”یہ دونوں میری بیٹیاں ہیں۔ان کی ماں آج کل لندن شاپنگ کے لیے گئی ہوئی ہے ٹینی ڈانس بہت اچھا کرتی ہے اور بینی گانے کی ماہر ہے۔“
یا پھر ”تادم تحریر“ کے مضمون”687 کلب روڈ“ میں ایک کردار اپنی بیٹی سے کہتا ہے:
 ”للی بیٹی! سوئمنگ سے جلد ہی لوٹ آنا ‘ تلاوت کا وقت ہونے والا ہے مولوی آتا ہی ہو گا۔“( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -