قدیم ایشیا ءمیں اپنی طرز کا سب سے مکمل نمونہ
مصنف: سرمور ٹیمر وھیلر
ترجمہ:زبیر رضوی
قسط:4
قلعے سے نیچے شہر‘ منظم قطاروں میں دریائے سندھ تک پھیلا تھا جو بعد کے زمانے میں کوئی 2 میل مشرق کی طرف ہٹ گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پرانے زمانے میں دریا کی ایک شاخ شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہو لیکن شہر کے نقشے کے زیادہ تر حصے میں ابتدائی عہد سے ہی ایک نمایاں ترتیب ملتی ہے‘ درحقیقت یہ باقاعدہ شہری منصوبہ بندی کی اب تک ظاہر ہونے والی سب سے پرانی مثال ہے۔ جنوب سے شمال کو جانے والی چوڑی سڑکیں تھیں جن کو دوسری سڑکیں عموداً کاٹتی تھیں۔ اس طرح بنے بلاکوں (ایسے سات بلاکوں کی شناخت کی گئی ہے اور مزید ایسے بلاکوں کی موجودگی کو فرض کرلیا گیا ہے۔ ان کا سائز 200X400 گز ہے) یا محلوں کو مزید بانٹنے والی متوازی یا عمودی شکل کی گلیاں تھیں۔ مکان اکثر بڑے اور کہیں کہیں کافی بڑے تھے۔ ان میں بالخصوص ایک آنگن کے گرد کمرے بنے ہوتے تھے اور چھت یا بالائی منزل کے لیے سیڑھیاں تھیں‘ ایک غسل خانہ اور کہیں کہیں کنواں ہوتا تھا۔ کسی کسی گھر میں نچلی یا بالائی منزل پر بیت الخلاءہوا کرتا تھا۔ گلی بازاروں اور عمارتوں میں ہر جگہ اینٹوں کی نالیاں تھیں جو موہن جوداڑو اور اس کے دیگر مقامات پر اس تہذیب کی خصوصیت میں صفائی کے لیے معائنہ کرنے کو (ان نالیوں میں) پاٹے ہوئے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ قدیم ایشیا ءمیں یہ اپنی طرز کا سب سے مکمل نمونہ ہے۔ سارے شہر سے یہ عیاں ہے کہ اس کے عروج کے وقت وہاں خوشحال متوسط طبقہ آباد تھا اور بلدیاتی نظام بڑے جوش و خروش سے چلایا جاتا تھا۔
مندروں کی واضح طور پر شناخت نہیں ہوئی ہے لیکن مزید جانچ سے اغلباً اب تک برآمد ہوئے علاقوں میں 2 یا 3 مندروں کا پتہ چلے گا۔ بالخصوص ایچ آر ایریا میں واقع مکان اے نمبر1 وہاں ایک چھوٹی مگر مستحکم مستطیل عمارت ملی ہے جہاں تک پہنچنے کا ایک بیرونی دروازہ ہے۔ سامنے کی بناوٹ کے متوازی بالکل ایک جیسی شناخت کی 2سیڑھیاں ہیں۔ وہیں سے پتھر کی 2مورتیوں کے ٹکڑے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اسی علاقے میں ایک اور جگہ پر (بی 5 میں) کوٹھریوں کا ایک باقاعدہ سلسلہ پایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں الگ الگ قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پجاریوں یا مذہبی رہنماﺅں کی درس گاہ اور اس سے ملحقہ مندر ہوگا۔ کچھ اسے پولیس تھانہ تصور کرتے۔ اس معاملے میں بھی بہت سے مزید کھدائی کرنے اور برآمد ہونے والی چیزوں کے بیان کو اور تجزیاتی طور پر قلمبند کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی سڑکوں کے ساتھ ساتھ دکانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
ان میں سے ایک دکان میں فرش پر ایسے پختہ گڑھے سے پائے گئے ہیں جن میں بڑے بڑے مرتبان ٹکائے جاسکتے تھے۔ نجی کنوﺅں کے علاوہ عوام کے استعمال کے کنویں بھی تھے جن تک سڑکوں یا گلیوں سے پہنچا جاسکتا تھا۔ شہر کے چوکیداروں کے لیے جہاں تہاں چھوٹے چھوٹے ”سنتری بکس“ ہیں‘ چنائی عام طور پر پختہ اینٹوں کی ہے اور اینٹ میں اینٹ پھنسا کر کی گئی ہے۔ کچّی اینٹوں کا استعمال لگ بھگ سب ہی جگہ صرف اندرونی چبوتروں میں کیا گیا ہے جن کے ذریعے عمارتیں بنانے والوں نے فرشوں کو چڑھتے ہوئے سیلاب کی سطح سے اونچا رکھنے کی کوشش کی تھی۔ جب عمارتیں بنی ہوں گی اس وقت بیشتر چنائی کے اوپر گارے کا پلستر کیا گیا تھا۔
ہڑپہ کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوا ریلوے کے انجینئروں نے بُری طرح تہس نہس کردیا ‘پھر بھی وہاں قلعے کے عام نشانات اور سڑکوں کی بناوٹ کے کچھ حصے برآمد ہوئے ہیں۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔