ایک وکھری ٹائپ کا آدمی (2)
پاکستان ٹائمز لاہور سے خالد حسن کی وابستگی سے پہلے آئی ایچ برنی کے ’ ’آﺅٹ لک“ کے لئے کبھی کبھار لکھنے اور پاکستان فیچر سنڈیکیٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا ایک مختصر سا وقفہ بھی ہے، لیکن ان کی تحریروں سے میری آشنائی دسویں جماعت کے طالب علم کے طور پر ان کے ہفتہ وار کالم Of this and that سے ہوئی ۔ یہ اولین تحریریں ہر اتوار کی صبح ایڈیٹوریل والے صفحہ کے لوئر ہاف میں جگہ پاتیں ۔ میرا مقصد خالد حسن کے اسلوب نگارش یا متن کے اجزائے ترکیبی کا تجزیہ کرنا نہیں ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ یہ ابتدائی کالم اپنے اندر مشاہدے کی سچائی کے ساتھ ساتھ ایک ایسا بھولپن لئے ہوئے تھے جسے فیض کے الفاظ میں ”ابتدائے عشق کا تحیر“ کہنا چاہئے ۔ چند جملوں کا آزاد ترجمہ ”زید ایک ذمہ دار شہری ہے ، جو بائیسکل پر ڈبل سواری کے جرم میں کبھی پکڑا نہیں گیا ۔ قومی انتخابات میں وہ کسی ایک یا دوسرے امیدوار کی حمایت میں حق رائے دہی ضرور استعمال کرتا ہے ، عموماً دوسرے امیدوار کی حمایت میں “۔دیکھیں ، بات معمولی سی ہے، لیکن مشاہدے کی معصومیت ، جملے کی سیدھی سادی ساخت اور عالمانہ بوجھ سے عاری ایک طرح کا مکالماتی لہجہ.... یہ سب مل کر پڑھنے والے کو ایک مخصوص کیفیتی فضا میں جکڑ لیتے ہیں ۔ شروع شروع کی یہ تحریریں پاکستان ٹائمز پریس اور شیخ غلام علی اینڈ سنز نے 1960ءکی دہائی کے آخر میں دو الگ الگ مجموعوں کی صورت میں شائع کی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے کتابچے تھے ، لکھائی چھپائی واجبی سی اور جلد بندی برائے نام ، لیکن آج بھی یہ تحریریں پڑھنے کو مل جائیں تو آپ بے مزہ نہیں ہوں گے ، بلکہ جس طرح گوجرانوالہ کے لاری اڈے پر مالٹے بیچنے والے انگشت شہادت بلند کر کے کہا کرتے ہیں : ”شرطیہ مِٹھّے“۔ان دنوں کے خاص خاص موضوعات میں گول باغ میں جاپانی گارڈن اگانے کا مبینہ منصوبہ، اس کے خلاف ”مال روڈ کے بے تاج بادشاہ“ سردار صادق کی زیر قیادت لاہور بچاﺅ مہم ، De-education کے نام سے بچوں کو الٹی ترتیب سے پڑھانے لکھانے کے امکان پر ایک کالم ، کہیں کہیں حبیب جالب کا کوئی مقبول عام شعر، لیکن ذرا بچ بچا کر ، ایک جگہ زمانہ ¿ طالب علمی کو یاد کر کے یہ پھڑکتا ہوا جملہ کہ سکول کالج کے دور میں ہمیں ہم عمر لڑکیوں سے زیادہ عبدالحفیظ کاردا ر میں دلچسپی ہوتی تھی ۔ ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں .... ” مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو “۔سقوط ڈھاکہ کے بعد کا پاکستان اپنے جلو میں واقعات کا ایک نیا تسلسل لے کر آیا ، لیکن اس سے پہلے واشنگٹن میں اس وقت کے صدر پاکستان ، جنرل یحییٰ خان کے ساتھ خالد حسن کی جو جھڑپ ہوئی ، وہ بھی خاصے کی چیز تھی، چنانچہ جب امریکہ میں صحافتی کورس مکمل کر کے خالد حسن پاکستان لوٹے تو کچھ عرصے تک ” پاکستان ٹائمز“ کے ہفتہ وار کالم کے لئے آپ کو حفاظتی تدبیر کے طور پر ’ ’جپسی“ یا خانہ بدوش کا قلمی نام اختیار کرنا پڑا ، جو کیا پتا ، تحت الشعور میں چھپی ہوئی کسی ایسی خواہش کا اظہار ہو کہ اس کے بعد کی زندگی میں :وحشتیں ہیں پاﺅں میں زنجیر پہنائے ہوئےقید صحرا کاٹتے ہیں گھر سے گھبرائے ہوئے ویسے یحییٰ خان سے خالد کی کھچ بازی نظریاتی اسباب کے ساتھ ساتھ کچھ جمالیاتی وجوہ کا نتیجہ بھی تھی ، کیونکہ خود ان کے غیر مطبوعہ الفاظ میں ، ایسے آدمی میں سوجھ بوجھ کیسے ہو سکتی ہے، جس کے کالر کا سائز ساڑھے 16 انچ سے زیادہ ہو ؟صدر ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکرٹری کے طور پر خالد حسن کا تقرر اور پھر اس سے اگلے سال بطور پریس اتاشی پیرس میں تعیناتی ، جس کے بعد وہ لیٹرل انٹری کے ذریعے پہلے اوٹاوہ اور پھر لندن میں قونصلر متعین ہوئے ۔ ان تمام حالات و واقعات کا بیان بھی ذولفقار علی بھٹو اور الطاف گوہر پر ان کے مضامین میں موجود ہے، لیکن پانچ ساڑھے پانچ سال کا یہ دورانیہ اس لحاظ سے بے ذائقہ رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تقاریر و بیانات سے ہٹ کر ، جو حامد جلال کی شراکت میں تین جلدوں میں سرکاری طور پر شائع ہوئے ، اس سرکاری ملازمت کے دوران خالد حسن کے قلم سے کوئی قابل ذکر تحریر نہیں نکلی، البتہ ضیا الحق کا مارشل لاءنافذ ہونے کے بعد جب ملازمت سے مستعفی ہو کر انہوں نے بی سی سی آئی کے تحت الطاف گوہر کے ساﺅتھ میگزین اور تھرڈ ورلڈ ریویو کے لئے کام شروع کیا تو قلم میں ایک بار پھر روانی آگئی ۔ اسی کی دہائی شروع ہونے پر اسلام آباد سے روزنامہ ”مسلم“ کا اجراءہوا ، اس لئے ہفتہ وار کالم کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا اور کچھ ہی عرصے میں ”سکور کارڈ “ کے نام سے سوانحی خاکوں کی کتاب شائع ہو ئی ۔ بعد کے برسوں میں لندن میں ہونے والی فیض کے تراجم .... The Unicorn and the Dancing Girl ....کی تعارفی تقریر میں خالد حسن نے تھرڈ ورلڈ فاﺅنڈیشن چھوڑنے کا جو قصہ بیان کیا، وہ ایک دلچسپ بائی لنگوئیل تقریر کی صورت میں میری ٹیپ پر اب بھی موجود ہے ۔ یہ 1980ءکا قضیہ ہے، جب فیض احمد فیض بھی ، جو بیروت میں ”لوٹس“ کے ایڈیٹر تھے ، لندن آئے ہوئے تھے ۔ خالد حسن نے فیض احمد فیض سے کہا کہ الطاف گوہر نے مجھے نوکری سے نکال دیا ہے ۔ خالد حسن اپنی سادگی میں یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ فیض احمد فیض ان کی بات سن کر شائد غصہ میں آ جائیں یا کسی اور شدید رد عمل کا اظہار کریں، مگر فیض صاحب نے جو اس گھڑی بھی حسن آفاق اور جمال لب و رخسار کے نام دل ہی دل میں کوئی پیغام سوچ رہے ہوں گے، نوکری چھوٹ جانے کی ہولناک خبر سن کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے بس ہلکی سی ”ہوں“ کر دی ۔جب یہ خبر کچھ ذیلی سرخیوں کے ساتھ پھر دہرائی گئی تو فیض نے ایک گوتمی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا : ”بھئی تم نے کتنے دن الطاف گوہر کے قمار خانہ ¿ عشق میں کام کیا “؟ جواب ملا کہ دو ، اڑھائی سال، تو کہنے لگے ”بس بھئی بہت ہے.... اتنا ہی ہوتا ہے“ ۔ آخر خالد حسن سے نہ رہا گیا اور جھنجھوڑنے کے انداز میں کہا کہ فیض صاحب ! گھر کا خرچہ ، مارگیج لون ، بچوں کی تعلیم.... مگر فیض کا فیض، دیکھئے کس انداز سے جاری ہوا ۔کہنے لگے ’ بھئی دل میلا نہ کرو ۔ سب ہو جائے گا .... ہم دے دیں گے‘ ۔ فیض کی نصیحت پر خالد نے دل میلا نہ کیا اور سب ہو گیا ۔مطلب یہ کہ ویانا میں اوپیک نیوز ایجنسی کی مادی لحاظ سے پُرکشش ملازمت بھی ملی اور ذہنی آسودگی کی وہ فضا بھی میسر آگئی کہ ترجمہ نگاری کا جھولا جھولنے کا مزہ آنے لگا ۔ تخلیقی آدمی کے لئے اس کی تخلیقی کاوش اپنے لخت لخت وجود کو جوڑ کر تکمیل ذات کا راستہ نکالنے کا بہانہ ہوا کرتی ہے۔ اقبال کو سواد رومتہ الکبرا میں دلی یاد آتی تھی۔ خالد حسن نے لندن، ویانااور بعدازاں واشنگٹن میں ہوتے ہوئے اپنی طبع کا گھوڑا بمبئی، امرتسر،لاہور اور سیالکوٹ کی گلیوں کی طرف موڑ دیا۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ 1980ءکی دہائی میں منٹو کی کہانیوں کے پہلے مجموعے....The Kingdom's End and Other Stories.... کی اشاعت ایک بڑا ادبی واقعہ ہے اور اس کے بعد تو گویا دبستاں کھل گیا ۔ (جاری ہے) ٭