تمہارے ، لوگ کہتے ہیں ، کمر ہے، کہاں ہے، کس طرح کی ہے، کدھر ہے ؟
یہ اگست 2012ءکی بات ہے ،ایک لڑکے،لڑکی نے پسند کی شادی کر لی ۔ دونوں اپنے والدین کے ردعمل کے خوف سے ادھر ادھر چھپ کر زندگی گزار رہے تھے۔لڑکی کے والدین ان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ بیٹی اور داماد کوتحفظ کا یقین دلانے کے بعد گاﺅں لے آئے جہاں حاملہ بیٹی اور داماد کو قتل کر دیا گیا۔ لڑکے والوں پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ بیٹا اور حاملہ بہو کا قتل ہو گیا۔ ان کے لئے قتل تو بھیانک تھا ہی، لیکن جس انداز میں انہیں قتل کیا گیا وہ انتہائی سفاکانہ تھا۔ احمد خان شیخ سینئر صحافی ہیں۔ ان کے ساتھیوں کو جب واردات کا علم ہوا تو سب ہی ان کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ساتھ ہو لئے۔ پولیس میں مقدمہ درج ہوا، اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے کانوں تک بھی معاملہ پہنچایا گیا، انہوں نے قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لئے احکامات بھی جاری کئے۔ ان کی دلچسپی کے بعد پولیس مستعد بھی ہوئی، قاتل بھی گرفتار ہوئے۔ جب پولیس نے لاشیں تلاش کیں تو لڑکے کے جسم کے اعضاءمختلف مقامات پر اس طرح جکڑے ہوئے ملے، جیسے اسے قبر ہی نصیب نہیں ہوئی ہو۔
مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ہوا۔ زیر سماعت مقدمہ کے دوران ہی مدعاعلیہ فریق نے جرگہ کرانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ضلع سانگھڑ کے مشہور زمانہ شاہ نواز جونیجو کے صاحبزادے محمد خان جونیجو تصفیہ کرانے پر رضا مند ہو گئے۔ شاہ نواز جونیجو خود بھی آمادئہ فساد فریقین میں تصفیہ کرایا کرتے تھے اور بہترین منصف کی شہرت رکھتے تھے ۔ پاکستان بھر میں اس طرح کا تصفیہ ایک رواج تصور کیا جاتا ہے۔جرگے میں فیصلے اکثر فی الفور کئے جاتے ہیں۔ سندھ میں اس کا زیادہ ہی رواج ہے۔ فریقین کے درمیان تصادم قبائلی تصادم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ قبائل کی معمول کی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ لاقانونیت اور بھیانک جرائم کے مقدمات عدالتوں میں اپاہج اورمعذور افراد کی طرح گھسٹتے رہتے ہیں، لیکن جرگے بڑے سے بڑے اور الجھے ہوئے مقدمات کو سلجھا دیتے ہیں۔ رسی میں پڑے تمام بل نکالے، اور رسی میں لگی ہوئی ہر گانٹھ کو دانتوں سے کھولا جاتا ہے ۔ فریقین کی رضا مندی سے منصف مقرر کیا جاتا ہے۔ منصف اپنی تقرری کے بعد فریقین کو اپنے نمائندے مقرر کرنے کا حکم دیتا ہے جنہیں امین کہا جاتا ہے ۔ تمام افراد کی موجوددگی میں فریقین کو سنا جاتا ہے، اس کے بعد امین بیٹھ کر رسی کے بل نکالتے ہیں، جب بل نکل جاتے ہیں تو فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہر غیر قانونی کارروائی اورغلطی پر جرمانے عائد کے جاتے ہیں جو قتل پر عام غلطیوں کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتے ہیں۔
بہر حال ایک اور جرگہ ہوا ،جس میں تہرے قتل کا تصفیہ کیا گیا۔ حیدرآباد میں 30 جنوری کو یہ جرگہ سرکٹ ہاﺅس کے لان میں کھلے آسمان کے نیچے ہوا۔ جرمانے کا فیصلہ دیا گیا کہ تہرے قتل کے ذمہ دار فریق مقتول کے لواحقین کو پچاس لاکھ روپے ادا کریں گے۔وہ یہ رقم منصف محمدخان جونیجو کے پاس جمع کرائی جائے گی جو احمد خان شیخ کو ادا کریں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بنچ نے 2005ءمیں سکھر کے وکیل شبیر شر کی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ جرگے نہ کئے جائیں، خصوصا قتل کے معامات پر جرگوں سے کنارہ کشی کی جائے۔ عدالت نے تاریخی فیصلہ دے دیا، لیکن گزشتہ دس سال کے دوران سینکڑوں جرگے منعقد ہوئے ، فیصلے ہوئے، عمل در آمد ہوا۔ ایک کے بعد دوسرا، تیسرا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ عدالتیں اپنے فیصلے کی کھلے عام توہین کے خلاف اقدامات نہیں کر سکیں ۔
2002ءمیں ضلع کشمور کے صحافی شاہد سومرو کو علاقے کے ایک قبیلے کے سردار کے بیٹے نے قتل کر دیا تھا۔ شاہد کے بھائیوں نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ پہلے مرحلے میں پولیس اور تھانے سے گزرے، وکیل کی خدمات حاصل کیں ، عدالت پہنچے، پیشیاں بھگتائیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسی مشق ہے ،جس میں دوست احباب اور زبانی جمع خرچ کرنے والے سارے ہی لوگ پہچانے جاتے ہیں۔ اخبارات ہوں یا انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والے، سب ہی اپنے اپنے محاذ پر سرگرم تو ہوتے ہیں، لیکن متاثرہ شخص کو سارے معاملے میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ پیسہ ہوتا ہے۔ کمزور حیثیت رکھنے والا فریق مزید زیر بار ہو جاتا ہے۔ فریقین میں سے جو زیادہ مالی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، وہ مقدمے کو الجھانے میں پیسہ صرف کرتا رہتا ہے، جبکہ دوسرا فریق سلجھانے میں ہی مصروف رہتا ہے۔ شاہد کے بھائیوں کے لئے بھی ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے گھر سے دوسرے شہر میں واقع عدالت تک پھیرے لگاتے ،اسی لئے صحافیوں نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ معاملے کو جرگے سے حل کرایا جائے۔ جرگے نے مقتول صحافی کو سولہ لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم دلائی جو اس کی بیوہ کو ادا کی گئی۔
بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان میں انصاف، بے بسی کا علاج ، پانی، تعلیم،ثمرات یا علاج، غرض ہر سہولت اور سب کچھ فروخت ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ انصاف تو بہت فلٹر (کئی مرحلوں کے بعد میسر ہوتا ہے ) ہو کر ملتا ہے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ عدالت میں فوری انصاف ملتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لئے وکیل کی خدمات ضرور حاصل کرنا ہوتی ہیں جو بلا معاوضہ ہر گز نہیں ملتیں۔ عام طور پر وکیل کی فیس ایک عام شخص کی استطاعت سے بہت زیادہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پھر عدالت میں مقدمے کی سماعت اتنی طویل ہوتی ہے کہ ملازم پیشہ یا کاروباری شخص اس کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ پولیس تھانے کے پھیروں سے جب فارغ ہو کر کوئی شخص عدالت میں پہنچتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے ۔ اسے اس کی حقیقت پر مبنی شکایت کے ازالے کے لئے کب تک عدالت کے چکر لگانے پڑیں گے؟ سو اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔
معروف شاعر عبدالحمید عدم کہتے ہیں.... ©© ” ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں ، آپ کہتے ہیں تو رنجیر ہلا دیتے ہیں “.... اسی لمحے جب ہمت جواب دے جاتی ہے تو پنچائت یا جرگے کا خیال پیدا ہوتا ہے اور وہ شخص کسی منصف کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ احمد خان شیخ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام زندگی فتنے اور فساد سے دور رہنے والے شخص کو جب ناگہانی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے سمجھا کہ قانون، قانون نافذ کرنے والے عناصر اور عدالت ان کی بات سنیں گے اور انہیں انصاف فراہم کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ انہیں قدم قدم پر ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ صبر کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں کر سکتے تھے۔ لوگ جرگے اور پنچایت سے اسی لئے رجوع کرتے ہیں کہ ان کی قوت، وقت اور پیسہ جواب دے جاتے ہیں۔ پنچایت یا جرگے میں انہیں خود ہی اپنی بات کرنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے۔ نثار صدیقی کبھی سول سروس کے ملازم ہوا کر تے تھے۔ محنتی اور ایمااندار افسر تصور کئے جاتے تھے۔ دوران گفتگو ایک مرتبہ کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی جرم ہو اور کیسے ہی شخص سے مرتکب ہوا ہو، وہ جرگے میں لفظ لفظ حقیقت بیان کر دیتا ہے اور اپنے آپ کو جرگے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جرگے میں غلط بیانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ فوری تردید کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مجرم مطمئن ہوتا ہے کہ اگر اسے سزا بھی ملی تو جرمانہ ہوگا ، جو اگر وہ ادا نہ کر سکا تو اس کی برادری چندہ کر کے جمع کرائے گی اور اسے قانون کی قید جیسی مشقت سے نجات ملے گی ۔
مجرم کے ہاتھوں متاثر ہونے والا شخص سمجھتا ہے کہ بلا وجہ عدالت اور وکیل کے چکر میں پڑنے سے بہتر ہے کہ وقت اور پیسہ بچاتے ہوئے جرگے کے فیصلے پر سر خم کر دیا جائے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایک بار دشمنی سر اٹھا لے تو اسے بھگتنا بڑا ہی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ دشمنی کے شکار فریقین کی ذاتی اور خاندانی وسماجی زندگی تو متاثر ہوتی ہے ، جس کے اثرات ان کی آمدنی پر بھی پڑتے ہیں۔ ریاست میں جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے، اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کا بندوبست کرے اور ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس تماش گاہ میں جہاں حکومتیں عوام کو انصاف فراہم نہ کر سکتی ہوں، ان کی بے بسی دور نہ کر سکتی ہوں ، انہیں پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر سکتی ہوں ، وہاں عوام سوائے تمنا کرنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس لئے جرگے میں پہنچ کر ہی انصاف حاصل کر لیتے ہیں۔
رہ گئی بات یہ کہ جرگے غیر قانونی ہیں، انہیں قتل کے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، اپنی جگہ درست تو ہے، لیکن لوگ کیا کریں؟ تو پھر پاکستان کی سپریم کورٹ کو آگے بڑھنا چاہئے، جن جرگوں کو وہ روکنا چاہتی ہے (تاکہ قانون کی حکمرانی ہو) تو اس کا متبادل تجویز کرتے ہوئے عام لوگوں کے لئے سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کا بندوبست کرے۔ عدالتوں سے ہٹ کر قتل کے معاملات پر بھی سپریم کورٹ کے احکامات موجود ہیں کہ قصاص اور دیت کب اور کس طرح قابل عمل ہوں گے۔ کراچی میں قتل کئے جانے والے نوجوان سرفراز شاہ کیس میں تو راضی نامے کو بھی عدالت نے منسوخ کر دیا ۔یہ کالم لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ماورائے قانون کسی قدم کی حمایت کی جائے، لیکن قانون پر عمل در آمد کی راہ میں جو مشکلات در پیش ہوتی ہیں یا رکاوٹیں موجود ہیں، ان کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ خواہش تو سب کی ہے کہ سستا اور فوری انصاف میسر ہو، لیکن جب ہو.... شاعر شاہ مبارک آبرو اسی لئے کہتے ہیں:” تمہارے ، لوگ کہتے ہیں ، کمر ہے، کہاں ہے، کس طرح کی ہے، کدھر ہے“؟