’وہ ڈاکٹر‘ جو ٹوٹی ٹانگ کا علاج کرنے کی بجائے مریض کو ہی گولی مار دیتا ہے

Feb 04, 2016 | 06:21 PM

نعمان تسلیم

تحریر:نعمان تسلیم خان

ایک شخص کی حادثے کے دوران ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اسے ہسپتال لایا گیا۔آپریشن تھیٹر میں مریض ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ لیٹا ہوا ہے اور ڈاکٹر اندر داخل ہوتا ہے۔ڈاکٹر اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے جیب میں سے پستول نکالتا ہے اور مریض کو گولی مار دیتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی پاگل ڈاکٹر ہی اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے۔مریض کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ اس کا علاج کرے نہ کہ اسے گولی ماردے۔ڈاکٹر جیسی ہی حرکت حکومت پنجاب نے کی جس نے تبلیغی جماعت پر تعلیمی اداروں میں داخلے پر صرف اس بات پر پابندی لگادی کہ اس جماعت کے بھیس میں کچھ لوگ طالبان کی سوچ کو فالو کرتے ہیں اور ملک میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘کے مصداق شیخوپورہ پولیس نے تو تبلیغی جماعت پر ضلع میں داخل ہونے پر ہی پابندی لگادی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کے لوگوں پر دہشتگردی کے الزامات لگے ہیں لیکن صرف اس بات کو بنیاد بنا کر پوری جماعت پر پابندی کسی بھی جمہوری معاشرے میں اچھی بات نہیں سمجھی جاسکتی۔پاکستان کا آئین اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ یہاں پر لوگوں کو شخصی آزادی حاصل ہوگی اور تمام لوگوں کے ساتھ مساوات پر مبنی سلوک کیا جائے گا۔نہ صرف تبلیغی جماعت بلکہ دیگر مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والوں کا بھی یہ بنیادی حق ہے کہ وہ کسی خوف سے آزاد ہوکر زندگی گزاریں۔حکومت پنجاب کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی کہ اس پابندی کے بہت خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنی انٹیلی جنس کو بہتر  بناتے ہوئے ان عناصر پر نظر رکھے جو دہشتگردانہ کاروائیاں کرتے ہیں لیکن ایسا عمل کرنے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔چونکہ بیماری کو ٹھیک کرنے میں محنت درکار ہے اس لئے یہ کرنے کی بجائے آسان حل یہی ہے کہ مریض کو ہی جان سے ماردیاجائے،نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

پیرس حملوں کے بعد یورپ تو مسلمانوں پر پابندی لگانے اور ان کی شخصی آزادی کو محدود کرنے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہا ہے اور حکومت نے یورپی ممالک  کو ایک سنہری موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اس پابندی کو مثال بناکر اپنے ممالک میں مسلمانوں کے داخلے پر ہی پابندی لگادیں۔

مزیدخبریں