بزنس لیڈروں کی وزیراعظم سے ملاقات
پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دنیائے معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے عالمی ادارے اور مطبوعات پاکستان کے بارے میں مُثبت رپورٹس پیش کررہے ہیں۔
امریکہ کے معروف ادارے ’’بلوم برگ‘‘ نے پاکستانی معیشت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ معاشی اصلاحات اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے جس کا ایک چھوٹا سا ثبوت یہ ہے کہ نئے سال کے پہلے مہینے کے اختتام تک تقریباً ایک ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی ہے، خوش قسمتی سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بھی شدید خواہش ہے کہ پاکستانی معیشت کو تیزی سے ترقی دی جائے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت سنبھالنے والے صدر مظفر بلور اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کے چیئرمین افتخار علی ملک سے ملاقات کی جو انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی، وزیراعظم کی معاونت کرنے کے لئے سیکرٹری کامرس اور کامرس منسٹر پرویز ملک بھی موجود تھے۔
سہیل ملک چیئرمین کوآرڈینیشن ایف پی سی سی آئی کے علاوہ اسلام آباد چیمبر کے صدر عامر وحید سمیت دوسرے اہم بزنس لیڈروں نے خوشگوار ماحول میں بزنس کمیونٹی کے حل طلب مسائل پیش کئے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے موقع پر ہی ان مسائل کو حل کرنے کے لئے احکامات جاری کئے۔
افتخار علی ملک نے اس میٹنگ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا، وزیراعظم کی زبردست خواہش ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹس میں اضافہ ہو اور بزنس کرنے کے لئے خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے۔
نئی سرمایہ کاری لانے کے لئے جہاں غیر ملکی سرمایہ کارروں کو پُر کشش پیکیج دیئے جارہے ہیں وہیں پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی نئی سرمایہ کاری کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔
اس ضمن میں ایک ایمنسٹی سکیم بنائی جارہی ہے جس کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے کہ وہ پاکستانی جو اس خوف سے سرمایہ کاری نہیں کررہے کہ حکومت ان سے سرمائے کے بارے میں سوال کرے گی تو ایسے سرمایہ داروں کے لئے ایمنسٹی سکیم لائی جارہی ہے جو پاکستان سے بے روز گاری ختم کرنے کے لئے اپنا سرمایہ ظاہر کریں گے، اور حکومت تھوڑی سی کٹوتی کرکے انہیں نئے پیداواری یونٹس لگانے کی اجازت دے دے گی۔
ایکسپورٹرز کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ریفنڈ حکومت کے پاس ہیں جو اگر انہیں مل جائیں تو وہ نئی سرمایہ کاری کرکے ایکسپورٹ میں اضافہ کرسکتے ہیں، اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خزانہ کے مشیر مفتاح اسمٰعیل کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ ریفنڈز واپس کرنے کے لئے ایک ہفتے میں انہیں تجاویز دیں اور اب فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ایکسپورٹرز کے ریفنڈ تیزی سے انہیں واپس کردیئے جائیں گے۔
ایکسپورٹ میں اضافہ کرنے کے لئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے، وزیراعظم سے بزنس کمیونٹی نے شکوہ کیا کہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں بجلی اور گیس کے نرخ یکساں نہیں ہیں، مثلاً کراچی میں کارخانوں کو گیس سستی فراہم کی جاتی ہے جبکہ لاہور کے کارخانوں کو مہنگی ملتی ہے، اس وجہ سے پنجاب کے کارخانوں کی پیداواری لاگت سندھ سے زیادہ ہوجاتی ہے۔
اس ضمن میں وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یکساں نرخ لاگو کرنے کی پوری کوشش کریں گے، کیونکہ پیداواری اخراجات کم ہونے سے پاکستانی مصنوعات دنیا میں آسانی سے سستے داموں فروخت ہونے کی وجہ سے اپنی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔
ووکیشنل ٹریننگ، برانڈنگ اور موثر مارکیٹنگ کے لئے بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان بھی اپنے ویئر ہاؤس دوسرے ممالک میں قائم کرے جس طرح انڈیا نے قائم کئے ہوئے ہیں۔
سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز سے مختلف ممالک نے اپنا معاشی سفر بہت تیزی سے طے کیا ہے اور پاکستان سے معاشی طور پر پیچھے رہ جانے والے تھائی لینڈ، فلپائن اور سنگا پور جیسے ممالک اپنی چھوٹی انڈسٹری کو ترقی دے کر معاشی طور پر پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ سمال اینڈ میڈیم بزنس کی ترقی کے لئے بھی ہر قدم اٹھایا جائے گا۔بیرون ملک سے گاڑیوں کی امپورٹ نے پاکستانی آٹو موبیل انڈسٹری کو متاثر کیا ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو گاڑیاں آچکی ہیں، انہیں تو کلیئر کردیا جائے گا، لیکن آئندہ سے کمرشل مقاصد کے لئے نئی گاڑیوں کو صرف پالیسی کے مطابق لانے کی اجازت ہوگی۔
سی پیک کے حوالے سے کہا گیا کہ ایسی انڈسٹری لگائی جائے جو پاکستانی انڈسٹری کو متاثر نہ کرے اور جو سہولتیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جارہی ہیں وہی سہولتیں پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی حاصل ہونی چاہئیں، تاکہ پاکستان سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔
خیبر پختونخوا کے علاوہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں اکنامک زونز قائم کئے جائیں اور بائی پاس کا انتظام بھی کیا جائے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یقین دلایا ہے کہ بزنس کمیونٹی فراخ دلی سے سرمایہ کاری کرے، حکومت ہر قدم پر ان کا ساتھ دے گی۔
اس سلسلے میں انہوں نے اشارہ کیا کہ پاکستان کا آئندہ بجٹ سرمایہ کار دوست ہوگا اور بزنس کمیونٹی دیکھے گی کہ حکومت اپنی سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول فراہم کردے گی۔