ٹریفک پولیس کی شاندار کار کردگی
لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر ( سی ٹی او) رائے اعجاز احمد کی جدوجہد کی بدولت لاہور کی ٹریفک میں خوب روانی آگئی ہے ۔
جب اورنج ٹرین کے آخری مر حلے میں جی پی او چوک کو تین ماہ کے لئے بند کرنے کی خبروں نے ہر شہری کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا ، بلکہ میرے جیسے سینئر سٹیزن نے تو گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ حوصلہ کر کے موہنی روڈ سے عابد مارکیٹ کا سفر کر کے احساس ہوا کہ سفر تو پہلے سے بھی آسان ہو گیا ہے ۔
پہلے دو دو گھنٹے تک ٹریفک میں پھنسنا پڑتا تھا، مگر سی ٹی او صاحب نے کما ل منصوبہ بندی کے ذریعے شہریوں کے لئے آسانیاں پید ا کردی ہیں۔ جو طریق کار اب شروع کیا گیا ہے ، پہلے اس پر کیوں توجہ نہیں دی گئی ۔
اس پر میں نے لوئر مال سیکٹر کے انچارج عرفان منظور صاحب سے معلومات حاصل کیں ۔ عرفان منظور میرے بچوں کی طرح ہیں جو بے حد محنتی اور ذمہ دار افسر ہیں ، انہوں نے بتایا کہ یہ سب کچھ رائے اعجاز صاحب کی ذاتی دلچسپی اور اپنے فرائض میں دیانتداری کے باعث ایسا ہو سکا ہے ۔جی پی او چوک بند ہونے کے بعد تمام متبادل راستوں کو تجاوزات سے پاک کردیا گیا ہے ۔
ان سڑکوں کے درمیان عبوری طور پر بانس لگاکر دو رویہ کر دیا گیا ہے جس سے خود بخود ہر شخص قطار میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ جس کے باعث ٹریفک رواں دواں رہتی ہے ۔
ان راستوں کے تمام چوکوں پر ہشاش بشاش ٹریفک وارڈنز کو تعینات کیا گیا ہے ، جو آپس میں گپ شپ یا ہر وقت چالان بک ہاتھوں میں رکھتے تھے ، اب وہ ٹریفک کنٹرول کرنے میں ہر وقت کو شاں نظر آتے ہیں ۔
خصوصاً جین مندر چوک ، لٹن روڈ ، اے جی آفس چو ک اور پرانی انار کلی چوک میں تو وارڈنز انتہائی جانفشانی سے ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں ، جس سے ٹریفک جام کہیں نہیں نظر آتی ۔ ہر دس بارہ فٹ پر ایک وارڈن کھڑا کر دیا گیا ہے۔
اگر سی ٹی او صاحب ٹریفک وارڈنز کو صرف ٹریفک کنٹرول کرنے کا ٹاسک دے دیں تو انہیں یقیناًسو فیصد کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
اب جبکہ تمام اہم سڑکوں پر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت کیمرے نصب کئے جا چکے ہیں ، الیکٹرانک چالا ن گھروں میں بھجوانے کی بھی خبریں آچکی ہیں تو وارڈنز کے ہاتھوں سے چالا ن بک واپس لے لیں اور ان سے صرف ٹریفک ڈیوٹی لی جائے تو مزید بہتری لائی جاسکتی ہے ۔
میٰں نے ،ٹریفک میں جو بہتری اور روانی محسوس کی ہے بجا طور پر یہ سی ٹی او صاحب کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا واضح ثبوت ہے ، انہی سے یہ گزارش ہے کہ چالانوں کی کتابیں وارڈنز کے ہاتھوں سے چھڑا لیں اور ان سے صرف ٹریفک کنٹرول کرنے کا کام لیا جائے تو شہریوں کو آسانیاں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔
لاقانونیت کرنے والے تمام شہریوں کو چالان گھروں میں پہنچانے کا انتظام کر دیا جائے تو معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ سی ٹی او صاحب سے گزارش ہے کہ وہ سڑکوں کی توڑ پھوڑ اور جگہ جگہ بجری اور پائپوں کے ڈھیروں کو کسی طرح اٹھانے کا انتظام کر دیں تو مزید روانی پیدا ہوسکتی ہے ۔
کئی سڑکوں پر کئی کئی روز سے خواہ مخواہ کھدائیاں کر کے ملبہ پڑا ہو ا ہے، اسے اٹھانے کے لئے وہ ٹیپا کے اعلیٰ حکام سے روابط کو مزید بڑھائیں ، جہاں بڑ ے بڑے گڑھے پڑے ہیں انہیں فوری طور پر مکمل کرائیں ۔ پارکنگ اور تجاوزات کا خاتمہ کرادیں تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ لاہور کی ٹریفک بہتر ہوسکتی ہے ۔
پنجاب حکومت نے بھی ٹریفک نظا م بہتر بنانے کیلئے شہر بھر میں انڈر گراؤنڈ پارکنگ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد شہر کے تمام اہم مقامات پر شاہراہوں سے پارکنگ سٹینڈ ختم کر دیئے جائیں گے ۔ ان مقامات کا تعین کرنے کیلئے متعلقہ اداروں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔
یہ تمام پارکنگ مارکیٹوں اوربڑے سرکاری دفاتر کے پاس بنائی جائیں گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر کی اہم شاہراہوں ، جن پر بڑے سرکاری ادارے یا مارکیٹیں موجود ہیں ،وہاں پارکنگ سٹینڈ ٹریفک میں خلل پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں ۔
چونکہ لاہور میں پارکنگ پلازے بنانے کے لئے بھی جگہ موجود نہیں، اس لئے حکومت کی جانب سے متعلقہ اداروں کو یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ ابتدائی مرحلے میں لاہور میں انڈر گراؤنڈ پارکنگ بنانے کے لئے جگہ کا تعین کریں اور اس پر آنے والے اخراجات اور اس کی جلد ازجلد تکمیل کی مدت کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے ، تاکہ کوشش کی جائے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے اس پر کام شرو ع ہوسکتا ہے یا نہیں ۔
ٹریفک کے نظام کو درست کرنا تو بجا طورپر حکومت پنجاب کی ترجیحات میں ہونا چاہیے ،مگر اس کام میں اتنی عجلت بھی ٹھیک نہیں ہو گی کہ ایک طرف اورنج لائن ٹرین تکمیل کے آخری اور کٹھن مراحل میں ہے ،شہر میں اس منصوبہ کی تکمیل سے پہلے کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا گیا تو اس کے اچھے اثرات بھی ضائع ہو جائیں گے ۔
حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ اسے اپنی گزشتہ ساڑھے چا ر سالہ کارکردگی پر یقن رکھنا چاہیے ۔ اگر اس نے اگلے انتخابات میں کامیا ب ہونا ہے تو اس قسم کے اقدامات ان کی سابقہ اچھی کار کردگی کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
شہر کے ووٹروں کی بڑی تعداد اورنج لائن کی دھول اور گردو غبار کو نہیں بھول سکی ، جو وہ دو سال سے اچھے مستقبل کیلئے برداشت کر تے آرہے ہیں ، مزید دھول چاٹنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں ؟ منصوبہ بندی ضرور کر لی جائے ،مگر اسے اگلے عام انتخابات کے بعد شروع کیا جائے ، اسے منشور کا حصہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ، مگر جلد بازی میں اپنا ہی ووٹر خراب نہ کر بیٹھیں ۔ امید ہے ان تجاویز پرضرور غور و فکر کیا جائیگا ۔کہی یہ پہلے سے موجود زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہی نہ ثا بت ہو ۔ آپ یقین رکھیں اگلے پانچ سال بھی آ نے ہی کام کر نا ہے۔