فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر350
ہم ایک واقعہ بیان کر چکے ہیں کہ ایک بار بہار اور دوسرے فنکار سیّد کمال کو گھیر گھار کر شیزان ریستوران میں لے گئے۔ کمال صاحب کچھ دیر کیلئے غائب ہوئے اور پھر آئے تو بڑی فراخدلی سے انہوں نے کھانے پینے کی اشیاء منگوانے کیلئے آرڈر دیئے۔ سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کمال حاتم طائی کیسے بن گئے۔ کمال نے تمام فنکاروں سے آٹوگراف حاصل کر کے ریستوران کے منیجر صاحب کو دے دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بے چارے کے بچّے فنکاروں کے آٹوگراف حاصل کرنے کے بہت دلدادہ ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ کمال نے منیجر صاحب سے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ سب فنکاروں کے آٹوگراف لے دیں گے۔ اس کے بدلے منیجر صاحب بل کی رقم معاف کر دیں گے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر349 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہماری مزاج پُرسی کیلئے جو لوگ بھی آتے رہے اس میں خلوص اور ہمدردی کے سوا کسی اور مصلحت کو دخل نہ تھا۔ چلتے چلتے اس بارے میں ایک اور وضاحت بھی کر دیں۔اسد جعفری (اب مرحوم ہو چکے ہیں) نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے ایک بار لکھا تھا کہ جب ہم بیمار پڑے اور ہسپتال گئے تو محمد علی اور زیبا کئی بار ہماری مزاج پُرسی کیلئے ہسپتال گئے اور انہوں نے ہمارا بل بھی ادا کر دیا تھا۔ ہم نے اسد جعفری سے تو کچھ نہ کہا چونکہ اس کے بعد ان سے بالمشافہ ملاقات کی نوبت ہی نہیں آئی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن اللہ بخشے مرحوم کو یادداشتوں کے حوالے سے گپیں لگانے کی عادت تھی۔ غالباً اس طرح وہ قارئین کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ ان کے فلمی دنیا میں ہر ایک سے بہت گہرے اور بے تکلفانہ گھریلو اور ذاتی تعلقات تھے۔ ہمارے معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ ہم 1965ء میں بیمار پڑے تھے، اس وقت تک محمد علی اور زیبا کی آپس میں شادی ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس وقت ان کے تعلقات خاصے کشیدہ تھے کیونکہ ایرانی فنکارہ ماہ پارہ سے محمد علی کا سکینڈل بہت زوروں پر تھا اور نوبت شادی تک پہنچنے والی تھی۔ دراصل یہ حُبّ علی سے زیادہ بغض معاویہ والا معاملہ تھا۔ ان دونوں میں اس قسم کی کشیدگی اکثر پیدا ہوتی رہتی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ محبت ہی دراصل نفرت کا پیش خیمہ ہوتی ہے تو یہ بات علی زیب پر بھی صادق آتی تھی۔ ناراض ہو کر ایک دوسرے کو پریشان کرنے کیلئے یہ دونوں اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے تھے لیکن ان کے پس منظر میں بے محابا پیار کے جذبات کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ بہرحال ہم یہ بتا رہے تھے کہ محمد علی اور زیبا اس وقت تک میاں بیوی نہیں بنے تھے اور اس زمانے میں غیر شادی شدہ آرٹسٹ کُھلے بندوں ساتھ ساتھ نہیں گھومتے تھے جیسا کہ بعد میں عام رواج ہو گیا۔ جہاں تک ہمارے ہسپتال کا بل ادا کرنے کا تعلق ہے۔ یہ بھی خلاف حقیقت ہے۔ علی زیب ہی کیا کسی سے بھی ہم زندگی بھر ایک پیسہ تک لینے کے روادار نہیں ہوئے۔ جہاں تک ہو سکا دوسروں کے کام آئے لیکن خدا کا شُکر ہے کہ کبھی کسی کا مالی یا کسی اور قسم کا احسان نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی مصلحت کے پابند نہیں ہوئے۔ اس زمانے میں ہمارے مالی حالات عام دنوں کے مقابلے میں کہیں بہتر تھے۔ ’’کنیز‘‘ اسی زمانے میں ریلیز ہوئی تھی اور ہماری جیب گرم تھی۔ یہ سطور ریکارڈ درست کرنے کی غرض سے لکھ دی ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔
اسد جعفری کا ذکر چھڑ گیا ہے تو کچھ ان کے بارے میں بھی ہو جائے۔ اسد جعفری ہمارے بہت اچھّے اور بے تکلّف دوست تھے۔ ان کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جہاں ان کے والد آرمی میں تھے۔ اسد جعفری اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک کے نزدیک تر ہونا چاہتے تھے۔ ان کا نہ کوئی بھائی تھا‘ نہ بہن۔ والد انتقال کر چکے تھے۔ لے دے کر ایک والدہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ ماں بیٹے میں مثالی پیار تھا۔ اسد جعفری نے اپنی والدہ کی حتی المقدور بلکہ مقدور سے بڑھ کر خدمت کی اور ہر طرح انہیں آرام اور خوشی فراہم کرنے کی کوشش کی۔ سوائے شادی کے۔ والدہ ہر ماں کی طرح ان کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتی تھیں مگر اسد یہ معاملہ گول کر جاتے تھے۔ انہیں بے تکلّف دوست جعفری کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ کم از کم ہم نے تو انہیں کبھی اسد یا اسد جعفری نہیں کہا۔
جعفری ڈھاکہ میں کسی انگریزی فرم میں کام کرتے تھے اور غالباً ٹائپسٹ تھے۔ ضیا سرحدی پاکستان آئے اور انہوں نے ’’راہ گزر‘‘ کے بعد دوسری فلم ’’آخرِ شب‘‘ کا آغاز کیا تو اس فلم میں ایک کردار کیلئے ان کی نگاہ انتخاب اسد جعفری پر پڑ گئی۔ اس طرح وہ ضیا سرحدی جیسے نادرِ روزگار کی دریافت کہے جاتے ہیں۔
فلم ’’آخرِ شب‘‘ تو مکمل نہ ہوئی مگر ان ہی دنوں میں حسن طارق اور شمیم اشرف ملک (یہ دونوں ہمارے گہرے دوست تھے۔ اب دونوں دنیا میں موجود نہیں ہیں) نے مل کر ایک فلم ’’نیند‘‘ بنائی جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ہیروئن تھیں اور اسلم پرویز ،وہ تھے تو ہیرو مگر ان کا کردار ویلن جیسا تھا۔ اس قسم کا کردار انہوں نے پہلی بار ادا کیا تھا اور خوب داد پائی۔ اسی فلم سے لوگوں کو احساس ہوا تھا کہ اسلم پرویز دراصل ہیرو سے زیادہ ویلن کے کردار کیلئے موزوں ہیں۔ اس کے بعد طارق صاحب نے فلم ’’شِکوہ‘‘ میں انہیں اسی قسم کا کردار سونپا اور اسلم پرویز نے خوب واہ واہ حاصل کی۔ اس کے بعد تو چل سو چل والا معاملہ ہو گیا اور وہ برّصغیر کی فلمی دنیا کے ممتاز ویلن کہلائے۔
’’نیند‘‘ میں جعفری صاحب نے ایک کلرک کا کردار کیا تھا جو چپکے چپکے ریلوے لائن پر کوئلہ چننے والی سے عشق کرتا ہے مگر وہ کسی اور کی شیدائی ہے۔ جعفری نے یہ کردار بہت خوبی سے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں نیلو اور نگہت سلطانہ نے بھی نمایاں کردار کئے تھے۔ اس کے بعد وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر اداکار بن گئے مگر کردار ادا کرنے والوں کو مالی اعتبار سے ہمیشہ تنگدست ہی رہنا پڑتا ہے۔ پھر جعفری ہر قسم کے کرداروں کیلئے موزوں بھی نہیں تھے۔ مخصوص قسم کے کردار ہی کر سکتے تھے۔ وہ دراصل ہیرو بننے کے چکّر میں فلمی دنیا میں آئے تھے لیکن ہماری فلموں میں ہیرو میں جس قسم کی چاکلیٹ ہیرو جیسی خصوصیات درکار ہوتی ہیں جعفری ان سے محروم تھے اس لئے ہیرو کے بجائے سائیڈ کرداروں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ تعلیم یافتہ‘ شریف اور وضع دار آدمی تھے۔ جب مالی مشکلات کا شکار ہوئے تو گھبرا کر صحافی بن گئے اور اخبارات و جرائد میں لکھنے لگے۔ کچھ عرصے بعد انہیں یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ فلم والے انہیں محض صحافی سمجھتے ہیں‘ اداکار جان کر انہیں کوئی کام نہیں دیتا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر351 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں