سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 48

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 48
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 48

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سورج کی کرن پھوٹتے ہی سلطان نے انگڑائی او ر آنکھیں کھول دیں۔۔۔تبسم فرمایا جس نے چہرے پر روشنی کر دی۔بغیر کسی کا سہارا لئے تکیوں پر کہنیاں ٹیک کر نیم دراز ہو گئے ۔تمیم کیا۔قضا نماز ادا کی۔سلام پھر دیکھا تو عادل آدابِ شاہی ادا کر رہے تھے۔اپنے پاس بلایا۔ایک ہاتھ ان کے اور دوسرا شاہزادہ عزیز کے ہاتھ میں دے دیا۔چاروں طرف سے بر ستی ہو ئی صحت کی مبارکباد پر مسکراتے رہے۔دوا سے بھرا ہو ا پیالہ ان کے دستِ مبارک میں تھاکہ فرما نبروائے کیفانورالدین محراب کے قریب آکر آداب شاہی ادا کرنے لگا۔عادل کا اشارہ پاکر وہ ان کے قریب گیااور عادل کے کان پر منھ رکھ کر سرگوشیاں کرنے لگا۔عادل کے چہرے پر شکنیں رینگنے لگیں۔پھر تقی الدین میں گردن ہلا کر سلطان کی طرف متوجہ ہو گئے۔سلطان نے عادل سے پوچھا۔
’’کیاہے؟‘‘عادل نے قدرے تامل کے بعد عرض کیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’روم کا اسقف جو اپنی کرامتوں کی وجہ سے ساری عیسائی دنیامیں مشہورہے ۔بیت المقدس کی زیارت کرتا ہوا دمشق آیا ہے اور دین پناہ کی حضوری کا خواستگار ہے لیکن طبیب خاص ۔۔۔۔‘‘
ْقبول کر لی گئی ‘‘
عادل اپنا جملہ مکمل کئے بغیر کھڑے ہو گئے اور عالم ایک دوسرے کامنھ دیکھتے رہے۔
تھوڑی دیر میں شہزادے اور امراء اس طرح اپنے اپنے مرتبے کے مطابق کھڑے ہو گئے کہ دلان نے دربار کی صورت اختیار کر لی۔خاصہ برداروں کا ایک پیدل دستہ اپنے زرکار لباس اور چڑاؤ ہتھیار پہنے آیا اور کمان کی طرح دلان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔مملوک شہسواروں کا ایک پہرا مرمریں سیڑھیوں کے دونوں طرف دور تک پھیل گیا۔باب الداخلہ شاہی تک سنگین راستے پر دونوں طرف سوڈان کے نیزہ باز قائم ہو گئے ۔پھر ترکمانوں کے جلوس میں پادریوں کاایک گروہ طلوع ہوا۔سب کے آگے آگے اسقف تھا۔وہ سیاہ نفیس ریشم کے ٹخنوں تک لمبے جبے پر دباغت ہو ئے سرخ چمڑے کی پاپوش پہنے تھا۔گلے میں بھاری چوبیں صلیب طوق کی مانند پڑی تھی۔برف کی طرح سفید ریشمیں داڑھی دمشق کی خوشگوار ٹھنڈی ہوا سے لزر رہی تھی۔دونوں شانوں پر گھنگھریالی کا کلیں تھیں۔سفید ابروؤں سفید پلکوں اور نیم آنکھوں پر رہبانیت کا تقدس برس رہا تھا۔خاصہ برداروں کی صف سے گزرتے ہی اسقف کی نگاہ سلطان پر پڑی۔اس نے جوانوں کی سی پھرتی سے سینے پر صلیب بنائی اور بوڑھے گھنٹوں پرکھڑا ہو گیا۔محراب میں کھڑے ہوئے عادل نے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ہر چیز کا جائزہ لیتی ہوئی ہوشیار آنکھیں اب صرف ہمارا سلطان پر مرکوز تھیں۔وہ چاندی کے دوکز اونچے ایوان پر تکیوں کے سہارے نیم دراز تھے۔نصف جسم پر زرد الوان پڑا تھا۔زرد مخمل کی صدری سے کفتان کا گلو بند نظر آرہا تھا۔صدری کی چست آستینوں کے تنگ کف مشکی مخمل کے تھے۔پتلی نوکدارداڑھی کے دونوں کنارے سیاہ تھے۔طربوش کے نیچے کالے گنجان ابروؤں کے سائے میں نیم خفتہ سی بیمار آنکھوں میں شہنشاہی کا جلال چمک رہا تھا،زردی مائل گندمی ستے ہوئے چہرے پر پسینے کے قطرے نظر آرہے تھے۔مصوروں کے سے خوبصورت ہاتھ پہلوؤں میں پڑے تھے،سرہانے کھڑے ہو ئے دوحسین بادشاہوں کا لباس پہنے مورچھل ہلا رہے تھے۔وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا اور ایوان کے سامنے کھڑا ہو اگیا،پھر گردن کوخم دے کرتین بار تعظیم دی۔
عادل نے مرصع کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اس نے گھٹنوں تک سر جھکا کر سلام کیا۔سارا دربار کھڑا تھا۔وہ بھی کرسی کے تکیے کاسہارا لیکر کھڑا ہو گیا۔تقریر اور تعلم کے عادی اسقف نے بولنا شروع کیا۔
نائٹوں کے نائٹ اور بادشاہوں کے بادشاہ کو سلام کرتا ہوں اور دلی شکر گزاری کا اظہار کرتا ہوں کہ مزاج شاہی کی ناسازی کے باوجود قدم بوسی کا شرف عطاہوا۔
’’شہنشاہا ! ایک مدت سے آرزو تھی کہ دنیا کے اس سب سے بڑے شہنشاہ کا نیاز حاصل کروں جس کے ہاتھوں میں مسیح نے القدس کی حفاظت سونپ دی۔مغرب میں محلوں سے جھونپڑوں تک جس کے نام کے گیت گائے جاتے ہیں اور فسانے سنائے جاتے ہیں۔‘‘
بوڑھا اسقف تھک گیا تھاسستانے کیلئے رکا اور پھربولا
’’دمشق پہنچ کر علم ہوا کہ سلطان اعظم علیل ہیں اور بڑ ے بڑے امیر باریابی کی سعادت سے محروم ہیں۔میں نے عبادت کی۔دعا مانگی ۔سلطان اعظم کی صحت اور اپنی باریابی کی دعا مانگی۔خدا کا شکر ہے کہ میں دیدار سے شرف ہو ایعنی ایک دعا پوری ہوئی اور امید ہے کہ دوسری بھی قبول ہو گئی۔‘‘
وہ آسمان کی طرف دونوں بوڑھے لانبے ہاتھ اٹھائے دعا مانگتا رہا۔
اگر سلطان اعظم سماعت فرما سکیں تو ایک گزارش گوش گزار کروں،غلام راہب ہے۔دنیا کی راحتوں اور کلفتوں سے بے نیاز لیکن جب بھی’’القدس‘‘ کی زیارت کو آیا ہوں یورپ کے کسی نہ کسی فرما نبروا کیلئے ایک دعا مانگی ہے۔اور مہد مسیح کی برکت کے صدقے میں پوری ہوئی ہے۔اس بارسفر کی نیت کرتے وقت عہد کیا تھاکہ یروشیلم کے رحیم فاتح کے حضور میں حاضری دوں گا۔اسکی ایک آرزو معلوم کرنے کی استد عاکروں گا اور قبولیت کیلئے مسیح سے رو رو کر دعا مانگوں گا۔۔۔اس لئے درخواست ہے کہ سلطانِ اعظم زبانِ مبارک سے ارشاد فرمائیں‘‘
اسقف کے اس جملے نے پیشانی مبارک پر شکن ڈال دی۔ابرو تن گئے۔(جاری ہے )

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں