کراچی ، ادبی فیسٹیول ختتام پذیر، آخری روز عوام کی بھرپور شرکت
کراچی(اسٹاف رپورٹر ) ادب فیسٹول پاکستان کی شریک بانی اور ڈائریکٹر،امینہ سید نے کہا ہے کہ لٹریچر فیسٹولز کا خیال اور بیج جنگل کی آگ کی مانند اس طرح سے پھیلا ہے کہ جیسے تمام پیڑ اس کا انتطار کر رہے تھے۔ا توار کو سندھ گورنر ہاؤس میں ادب فیسٹول کراچی کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی ایونٹ تھا مگر امید ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے اور صورت حال ایسی ہی نہیں رہے گی۔انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں" ادب فیسٹ ،اظہار کے ذریعے یعنی کتابوں ،بات چیت،بحث، آرٹ، موسیقی،قصہ گوئی اور رقص کے ذریعے اور دیکھنے، سننے اور سوال پوچھنے کے ذریعے امن اور یگانگت کو عام کرنے کی ایک تحریک ہے" ادب فیسٹ کے شریک بانی اور ڈائریکٹر، آصف فرخی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ " یہ تین دن مباحث، کتابوں کے اجرا، تھیئٹر، ڈرامائی تمثیل او ر موسیقی کے ساتھ جادوئی ماحول سے بھرپور تھا،اور اس سب کچھ کے زریعے ا ن لوگوں کو حیرت انگیز جواب دیا گیا جو اس کے مخالف تھے یہ سب کچھ ایک بہت چھوٹی سی ٹیم کی کوششوں سے ممکن ہوا" ۔انھوں نے چھوٹی موٹی خامیوں پر معذرت کی اور کہا کہ اصل کامیابی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم نے تما م تر مشکلات کے باوجود اس کا اہتمام کیا اور یہاں تک پہنچنے کے لیے راستے کی تکالیف برداشت کیں۔انھوں نے کہا کہ ہم نے فہمیدہ ریاض کے حوصلہ سے رہنمائی حاصل کی۔آصف فرخی نے کرشنا سوبتی کو خراج تحسین پیش کیا جو ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئیں جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے اوروہ اپنے علم اور تاریخی سوچ کے ذریعے ہم سے جُڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے الطاف فاطمہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا او ر خالدہ حسین کے ان الفاظ کا حوالہ دیا کہ" تحریر زندگی سے محبت کی نمائندگی کرتی ہے" گیٹز فارما کے سی ای او،خالد محمود نے کہا کہ " گیٹز فارما نے 1995 میں اپنے قیام سے ہی ہمیشہ ادبی سرگرمیوں میں تعاون اور اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں کردار ادا کیا ہے،جیسا کہ ہمارے وطن کے بانیوں نے ایک پر امن اور ترقی یافتہ ملک کے لیے سوچا تھا۔ ادب فیسٹول کے لیڈ اسپانسر کی حیثیت سے ہمارا تعاون ،حوصلہ افزائی، تحمل، مکالمہ اور قومی تعمیر کے ایک بڑے مشن کا حصہ ہے جس کے بغیر نہ تو صنعت اور معیشت اور نہ دوسرے ادارے پھل پھول سکتے ہیں" ۔آج ادب فیسٹول کے آخری روز ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں اہل علم، فن کار، ادیب، پاکستان اور بیرون ملک سے تاریخ دان،شاعر، کالم نگار، سیاست دان،طلبہ و طالبات،ٹیچرز اور لکھنے پڑھنے سے محبت کرنے والے لوگ شامل تھے۔ نوجوانوں میں فعالیت کے ایک نئے دور کے موضوع پر گفتگو میں فیصل صدیقی ،جبران ناصر اور عالیہ امیر علی شریک ہوئے جبکہ پلوشہ شہاب ماڈریٹر تھیں۔ایک اور سیشن کا موضوع تھا"Pakistan in the second globalisation. (We missed out on the Westren-Led, post -1980 wave: can we catch the bus on the second, China-led one?) ،اس پر بات چیت چیت میں مشتاق خان ،اسد سعید،احسان ملک اور ثاقب شیرازی نے حصہ لیا جبکہ سلیم رضا نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیئے۔رچرڈ ہیلر نے P.G Wodhousepr پر ڈرامائی تمثیل پیش کی ،عالیہ اقبال نقوی اس کی ماڈریٹر تھیں۔ہانی بلوچ کی کتاب زند اء آدنک (آئینہِ حیات)کا اجرا ہوا،جس کے بارے میں شیما کرمانی اور امر سندھو نے بات چیت کی۔احمد رشید کے ساتھ گفتگو میں زاہد حسین اور فاطمہ امان نے حصہ لیا۔ایک اور سیشن کا موضوع تھا " دلی جو ایک شہر تھا" اس میں آصف فرخی نے زہرہ نگاہ اور سیف محمود کے ساتھ گفتگو کی۔تعلیم کے بارے میں ایک مباحثے میں زبیدہ جلال، شاہد صدیقی،شہزاد رائے،سلمیٰ عالم،فیصل مشتاق اور امینہ سید نے اظہار خیال کیا۔ایوب خان کی حکمرانی میں کراچی کی زندگی کے بارے میں لیفٹننٹ کرنلIan Vaughan Arbuckle نے گفتگو کی جس کے بعد غازی صلاح الدین اور شیر شاہ سید نے اظہار خیال کیا۔سید کاشف رضا کی چار درویش اور ایک کچھوا،ایلس فیض کی یاد داشتوں کے اردو ترجمہ" کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں" کشور ناہید کی شیریں سخنی سے پرے اورفاروق باجوہ کی تصنیف From Kuch to Tashkent: : The Indo-Pakistan War of 1965 کا بھی اجرا ہوا۔شریف اعوان نے کراچی میں موسیقی کے بارے میں بات چیت کی۔عائشہ خان کی تصنیف The Women's Movement in Pakistan: Activeism, Islam and democracy اور ماہین عثمانی کی The Mercurial Mr. Bhutto and other stories کا بھی اجرا ہوا۔قومی زبان کے بارے میں پینل کی شکل میں بات چیت میں سلیمان شاہد، انعام ندیم، زاہد حسین اورامداد حسینی شریک ہوئے۔ایک اور سیشن میں محمد حنیف کی Red Birds اور افتخار صلاح الدین کی تصنیفIf Stones could Speak, Echoes From the Past کو قارئین کے لیے پیش کیا گیا۔