رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

پچھلے چند دنوں سے عوام کو نیلو جی کی تصویر بنائے میرے ذہن میں عوام زنجیر پہنے رقص کرتی ہی دکھائی دیتی ہے۔ گیارہ فروری 1965ء کے احکامات پہ عوامی نیلو جی پہ برسائے گئے کوڑے آج بھی اس قوم پہ برس رہے ہیں۔ اس وقت نیلو جی کی کھائیں نیند کی گولیاں آج بھی قوم کو سلائے ہوئے اسے سب غیر انسانی رویوں کو برداشت کرنے پہ مجبور کئے ہوئے ہیں ۔ میرے لبوں پہ بار بار یہی فقرے مچل رہے ہیں کہ
اہل ثروت کی یہ تجویز ہے سرکش لڑکی
تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جائے
ناچتے ناچتے ہو جائے جو پائل خاموش
پھر نہ تا زیست تجھے ہوش میں لایا جائے
تو کہ نا واقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
سایہء شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے
آج اپنے جذبات کو جونہی میں بے توقیر دیکھتا ہوں ،ملک میں درجہ اول اور درجہ دوم کے شہری کا فرق بھی میری آنکھوں میں خوب نمایا ں ہے۔ دوسرے ممالک میں تیسرے درجہ کے شہری کی زندگی گزارنے کے بعد اپنی درجہ دوم میں ترقی پہ خوش ہوا جائے یا رقص کیا جائے ابھی بھی یہ سوال مجھے لا جواب کئے دیتا ہے۔ قوم کا پیسہ ،قوم کا خزانہ ، چور ، ڈاکو کے شورو غوغا کے بعد میرے شاہوں کی وی وی آئی پی وارڈز میں شان و شوکت سے آمد میرے لئے پیغام ہے کہ درجہ اول کو مَس کرنا بھی عام عوام کے لئے ناممکن ہے۔ ملک کے موجودہ شاہ جو نہ بکنے کے دعوے دار تھے ہم غریبوں سے اپنی محبتوں اور عقیدتوں سے بھی نہ خریدے گئے اور وہ جو قومی اسمبلی میں کانوں میں ائیر پلگ لگائے کہہ رہے تھے کہ انہیں قسم ہے رب العزت کی کہ اب احتساب ہوگا تو میں خوش فہمی میں تھا کہ شایدشاہوں کا احتساب ہو گا لیکن اے دلِ ناداں تو تو یہاں بھی دھوکہ کھا گیا ۔عام عوام کا احتساب جو گیارہ فروری 1965ء کو شروع ہوا تھا بات اس احتساب کی تھی جو آج مہنگائی کے تازیانے لئے شدومد سے جاری ہے۔
ہم جو جلسہ جلسہ جلوس جلوس وعدوں پہ رقصاں تھے اور ہمیں روشن مستقبل کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا تھا ہم آج بھی ان زنجیروں پہ ناچ رہے ہیں اور شاہوں کو محظوظ کر رہے ہیں ۔میں نے ڈیڑھ سال سروسز ہسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ہیں۔ ان وی وی آئی پی رومز میں ذرا سے بھی سر درد پہ ڈاکٹروں اور عملے کی لگتی دوڑیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ جب تک ہم جونیئر ڈاکٹرز وہاں تک پہنچتے تھے تو پروفیسر صاحبان کو مریض کی نبض پکڑے کھڑا دیکھ کے حیران ہوتے تھے۔ باہر کی سیکیورٹی اور اندر بیٹھے مہمان مجھے کب بھولے ہیں کہ مریض کو ہم جیسے ڈاکٹرز تو ہاتھ نہ لگا سکتے تھے بس ہمارا کام تو ہاتھ باندھ کے کھڑا ہونا ہوتا تھا۔ برسوں پہلے کی تشخیص شدہ پتھری اس دفعہ کے سی ٹی اسکین پہ پھر گردے میں نمایا ں ہے ،اس کے لئے لتھو ٹرپسی تجویز ہوئی ہے ،عام مریض کی لتھوٹرپسی کے لئے بیرونی مریضوں کی لسٹ پہ سالوں میں ٹائم ملتا ہے لیکن شاہوں کے لئے اسی وقت انتظام ہے ،شاہ جو اس پتھری کو گردے میں لئے برسوں لا علم رہے ہیں اب ان کے خوب کام آ رہی ہے۔ شاہ دل اور شوگر کے مریض تو ہیں کچھ عمر کا تقاضا تو کچھ بسیار خوری لیکن جس ایمرجینسی سے لائے گئے ہیں وہ بھی قابلِ تحسین ہے کہ ایک جلو میں شان و شوکت سے چلتا آیا مریض شام کی چائے کے ساتھ خوب نوازا جائے گا ،شاید ان ہسپتالوں میں ادویات کی بجائے علاج غذا کے ساتھ کرنا تجویز ہوا ہے۔ مریض جس کو بھوک نہیں لگتی اور وہ پرہیزی کھانے پہ ہوتے ہیں ان کے لئے کل بیٹی جب کھانا لے کر گلاب کی پتیوں کی برسات میں پہنچی تو مریض کی سب کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں اگلا لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا۔ موجودہ شاہ کو اپنی کرسی یا پھر عوام کے درد سے اتنی محبت ہے کہ وہ اس شاہانہ علاجِ قید پہ لب بمہر ہیں۔ شاید ڈیل یا ڈھیل چل رہی ہے ورنہ چھوٹے میاں صاحب رینجر کی گاڑیوں میں گھومتے ہوئے وزراء انکلیو میں صاحب فراش ہیں تو دونوں بیٹے لندن۔
ماشاء اللہ داماد صاحب جب سے نیب تحقیقات شروع ہیں تو بیرونِ ملک ہیں ،شہنشاہِ وقت کشکول لئے ملک ملک جاتے ہیں ،جن کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کے پیسوں سے ملک کا قرض واپس ہوگا اس سے اب بے خبر زبان نہیں کھولتے۔ کاش یہ لوٹنے والے بھی درجہ دوم کے شہری ہوتے تو اس ملک کی پولیس وہ ہے کہ ہاتھی کو بھی ہرن بنائے جنگل سے لے آئے ،پر کیا کریں شاہوں پہ شاہ مہربان ہیں ،دل پسیج گئے ہیں یا پھر معاملہ اور ہے بس گزارش یہ ہے کہ درجہ دوم کی عوام کو بھی اگر کچھ بتا دیا جائے تو شاید اسے بھی بیچنے کو کچھ چورن مل جائے ورنہ بڈھا کھانس لینے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے۔ ویسے بھی شور مچانے والوں کے لئے سدا سے زہر کا پیالہ تو تیار رہا ہے۔
طبع شاہانہ پہ جو لوگ گراں ہوتے ہیں
ہاں انہیں زہر بھرا جام دیا جاتا ہے
تو کہ نا واقف آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کے بھی کیا جاتا ہے
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔