ایک امریکی طیارے کا کریش (2)
یہ طیارہ جو 27جنوری کو کابل سے 150کلومیٹر کی دوری پر غزنی کے علاقے دہ یک (Deh Yak)میں گر کر کریش ہوا اس کا برانڈ نام E-11A تھا۔ یہ طیارے کینیڈا کی ایک طیارہ ساز کمپنی بناتی ہے جس کا نام بمبار ڈیئر انکار پوریٹڈ ہے۔ اس لئے طیارے کا پورا نام E-11A Bombardierہے۔ کچھ برس پہلے اس قسم کے چار طیارے امریکہ نے کینیڈا سے خریدے تھے۔ یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں تاجروں اور ساہوکاروں کے پاس ذاتی استعمال کے لئے اپنے اپنے طیارے ہیں۔ ان کو بزنس جیٹ طیاروں کا نام دیا جاتا ہے(پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کے پاس بھی ایک چھوٹا بزنس جیٹ ہے جو E-11A سے مختلف ہے)۔ اس طیارے کی باڈی میں دو آرام دہ بیڈ اور چار صوفے لگے ہوتے ہیں۔ ایک ڈائنگ ٹیبل اور ایک رائٹنگ ٹیبل وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ پورا ایک کمرہ ہے جس میں شب خوابی کے لئے دو سنگل بیڈ لگے ہوئے ہیں۔ خود امریکہ بھی اس قسم کے طیارے بناتا اور ثروت مند عرب ممالک کو فروخت کرتا ہے۔
تاہم کینیڈا ساختہ اس طیارے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ 40000فٹ سے زیادہ بلندی پر پرواز کر سکتا ہے اور دہشت گردوں کی طرف سے لانچ کئے جانے والے میزائلوں سے بالعموم محفوظ رہتا ہے۔ جب یہ طیارے امریکہ نے خریدے تھے تو امریکی طیارہ ساز کمپنیوں نے بہت شور مچایا تھا کہ جب امریکہ خود ایسے طیارے بنا سکتا ہے تو ان کی خرید پر خواہ مخواہ پیسے کیوں ضائع کئے گئے ہیں …… لیکن امریکی طیارہ ساز کمپنیوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان طیاروں کو اس لئے خریدا گیا تھا کہ کینیڈا نے ان کی قیمت اس طرح کے امریکی طیاروں سے آدھی وصول کی تھی۔ اس بات کا علم تو اب جا کرمعلوم ہوا ہے کہ کینیڈا کے یہ طیارے اندر سے بالکل خالی خریدے گئے تھے۔ امریکی حکومت نے کینیڈا کو بتایا تھا کہ ہم خود ان طیاروں میں اپنی پسند کے بیڈ، صوفے، میزیں اور کرسیاں وغیرہ نصب کریں گے۔ ان کینیڈین کو معلوم نہ تھا کہ یہ طیارے پینٹاگون کو ٹرانسفر کر دیئے جائیں گے اور بہانہ یہ بنایا جائے گا کہ ان میں وزارتِ دفاع کے سینئر آفیسرز بیرون ملک آیا جایا کریں گے…… لیکن پینٹاگون نے تو ان E-11A قسم کے ”بزنس جیٹ“ طیاروں کو ایک اور مقصد کے لئے خریدا تھا!
ان طیاروں کی باڈی کے اندر ایسے اہم اور نازک قسم کے مواصلاتی جاسوسی آلات نصب کئے گئے جو رئیل ٹائم بیٹل فیلڈ انٹیلی جنس حاصل کرنے کا کام دیتے تھے۔ ان کو عراق، شام اور افغانستان میں جاسوسی کرنے کے لئے ٹرانسفر کر دیا گیا۔ ایک E-11A افغانستان میں بھی بھیجا گیا…… اور اس طیارے کا ایک حصہ ایک نئی اور اضافی حربی سہولت کے لئے بھی استعمال میں لایا گیا۔
قارئین کو معلوم ہو گا کہ امریکہ نے ماضی قریب میں افغانستان میں فارسی سے انگریزی میں ترجمانی کے لئے سینکڑوں انٹرپریٹر بھرتی کر رکھے تھے۔ ان کے ماہانہ مشاہرے بہت خطیر تھے اور ان کے بیوی بچوں کو امریکی تدریسی اداروں میں مفت تعلیم اور رہائش کی سہولیات بھی دے دی گئی تھیں۔ جب ناٹو کی افواج افغانستان میں آپریٹ کر رہی تھیں تو ان انٹرپریٹروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جو اب کم ہو کر محض ایک دو درجن رہ گئی ہے۔ جن افغان مترجمین کو امریکہ جا کر آباد ہونے اور ان کے خاندانوں کو دوسری تعلیمی اور رہائشی سہولیات دینے کے وعدے کئے گئے تھے ان کو اچانک فارغ کر دیا گیا۔ افغانستان میں ایک عشرہ قبل ڈیڑھ پونے دو لاکھ افرنگی سپاہ کی جگہ اب صرف 15000ٹروپس رہ گئے ہیں تو ان کے لئے زیادہ مترجمین کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔
اس امریکی ”بزنس جیٹ“ کے ایک الگ حصے میں نہ صرف اس طیارے کے عین نیچے زمین پر مصروفِ جنگ طالبان کی تصاویر طیارے میں نصب ٹی وی سکرینوں پر آجاتی ہیں بلکہ ان کی گفتگو بھی بیک وقت ساتھ ہی سنی جا سکتی ہے۔ چونکہ طالبان کی زبان فارسی اور پشتو ہے اس لئے اس جیٹ کے نیچے میلوں تک پھیلے میدانی اور کوہستانی حصار میں آپریٹ کرنے والے طالبان کی آڈیو اور ویڈیو کوریج بھی آتی ہے۔ اس خصوصی کمرے میں پشتو اور فارسی زبانوں کے انٹرپریٹر بھی بیٹھے ہوتے ہیں جو اس گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اس بزنس جیٹ کے توسط سے طالبان کے خلاف نبردآزما امریکی فورس کے افسروں کے ہیڈکوارٹرکو ریلے کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں زمین پر آپریٹ کرنے والے امریکی آفیسرز کو طالبان کی وہ تمام گفتگو سننے کی سہولت حاصل ہو جاتی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کسی بھی میدانِ جنگ میں مصروفِ جنگ ٹروپس کی گفتگو، حریف کو بروقت ایسی معلومات فراہم کرتی ہے جو اگر دوسرا فریق سن لے تو لڑائی کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ طالبان کو ایک طویل عرصے سے معلوم ہو رہا تھا کہ گراؤنڈ پر نہ صرف ان کی لوکیشن بلکہ ان کی ٹیکٹکس کی ساری تفصیلات دشمن (امریکہ) کو پہنچ رہی ہیں لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا یہ سارا سلسلہ ء کلام ان کے ساتھ مصروفِ کارزار امریکی ٹروپس سن رہے ہیں اور ان کی ساری حرکات و سکنات کے علاوہ ان کا ہر مکالمہ بھی امریکی کانوں تک پہنچ رہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ E-11A طیارہ جو اس وار تھیٹر (خطہ ء جنگ) کا مواصلاتی مرکز تھا وہ طالبان کی نگاہوں سے بہت دور اوپر فضا میں 40000فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا وہ سارا منظر امریکی ہیڈکوارٹر کو ارسال کر رہا تھا جو دشمن کے لئے زندگی اور طالبان کے لئے موت کا سبب بن رہا تھا…… لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر طالبان کو کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی طیارہ ہے جس میں ان کی مواصلات کی ساری تفصیل من و عن سنی جا رہی ہے…… یہ بڑا دلچسپ ”اتفاق“ ہے۔
ہوا یہ کہ ان پشتو مترجمین میں سے ایک کا بھائی وہ بھی تھا جو ناٹو کے زمانے میں پشتو زبان کا مترجم تھا اور اسے فارغ کر دیا گیا تھا اور اس کے بیوی بچوں کا بوجھ بھی اب اس بڑے بھائی کے سر پر آن پڑا تھا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ اس کو امریکہ بلا لیا جائے اور اس سے جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے کئے جائیں لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیسویں اور بھی فارغ شدہ مترجمین تھے جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ ان میں سے کئی طالبان کے ساتھ جا ملے اور امریکی ٹروپس کے بارے میں کئی حساس معلومات شیئر کیں۔ اس بڑے بھائی کو بھی طالبان کی طرف سے آفر تھی اور طالبان ایک عرصے سے جان چکے تھے کہ یہ E-11A قسم کا طیارہ ان کے خلاف ایک مواصلاتی مرکز (Communication Hub) کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
اس طیارے کی تکنیکی مقدورات و محدودات کا علم بھی اب طالبان کمانڈروں کو ہو چکا تھا۔ چنانچہ اب غزنی کے طالبان، امریکی فورسز کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کرنے کے قابل ہو چکے تھے۔ غزنی جو پہلے امریکہ کی ایک فاروڈ آپریٹنگ بیس (FOB) تھی، اب طالبان کے قبضے میں آ چکی ہے اور یہاں امریکی فورسز کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افغان نیشنل آرمی (ANA) کے وہ سرکاری ٹروپس جو غزنی ایریا میں آپریشن کے لئے بھیجے جاتے رہے ہیں وہ طالبان حملوں کا تر نوالہ بنتے رہے ہیں۔ اور ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ اب غزنی صوبے کا بیشتر کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور امریکی یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس کنٹرول کو دوبارہ طالبان سے واپس لے لیں۔چنانچہ طالبان کے خلاف گراؤنڈ آپریشنوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک طرف دو روز پہلے ظلمے خلیل زاد پاکستانی عسکری اور سویلین حکام سے بات چیت کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس طیارے کے مواصلاتی مرکز سے طالبان کے خلاف حملے بھی جاری تھے۔ (یہ طیارہ اور اس قسم کے دوسرے طیارے تو اس افغانستان جنگ کا ایک پہلو ہیں۔ اس طرح کے دوسرے بے شمار پہلو اور بھی ہیں جو افغانستان کے طول و عرض میں ایک عرصے سے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔)
اب تو اس بمبار ڈیئر کے کریش کی وڈیو کی تفصیلات دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جا رہی ہیں۔ امریکی بات بات پر جھوٹ بولنے کا ریکارڈ رقم کرتے جا رہے ہیں۔خود ٹرمپ نے عراق کے عین الاسد مستقر پر ایرانی میزائل حملے کے بعد اگلے روز (9جنوری) ایک پریس کانفرنس میں فرمایا تھا کہ ان ایرانی حملوں میں ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن چار روز بعد امریکی میڈیا کی خبر تھی کہ 11امریکی ٹروپس ان حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تعداد وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہے اور اب تازہ ترین تعداد 64ہو گئی ہے…… اسی طرح غزنی کے اس کریش میں بھی امریکہ نے بتایا تھا کہ اس کے صرف دو فوجی مارے گئے ہیں جبکہ طالبان نے اول روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی تعداد 5سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے اس تعداد میں انٹرپریٹرز شامل نہیں تھے اور اب امریکی انٹیلی جنس یہ پوچھ گچھ کر رہی ہے کہ مترجمین کو اس فلائٹ میں جہاز پر کیوں سوار نہیں کیا گیا تھا۔
ایک اور پہلو جس کی تحقیق کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ طیارہ (E-11A) جس جگہ کریش ہوا ہے وہ ایک کھلا برفانی میدان ہے۔منظر یہ ہے کہ طیارے کا پورا ڈھانچہ جل رہا ہے، آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں اور اردگرد تقریباً 45،50نہتے طالبان سیاہ لباس پہنے اس جلتے طیارے کی وڈیوز بنا رہے ہیں۔ سب کے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑے ہوئے ہیں۔پشتو اور فارسی میں گفتگوئیں ہو رہی ہیں اور یہ فرزندان کوہسار بے خوف و خطر جلتے طیارے کے اردگرد گھوم پھر کر دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ایسی چیز نظر آئے جو آگ سے کم متاثر ہو اور اس پر لپک کر قبضہ کیا جا سکے۔ اڑھائی منٹ کی یہ آڈیو وڈیو فلم میرے پاس بھی ہے اور آپ میں سے کئی حضرات کے پاس بھی ہو گی۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ طیارہ زیادہ بلندی سے نہیں مار گرایا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھر جاتے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے اسے کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے نشانہ بنایا۔ سوال یہ بھی ہے کہ طیارہ آخر اتنا نیچے کیوں پرواز کر رہا تھا کہ کریش ہو گیا (یا طالبان کے فائر سے گر گیا)
طالبان کا اس علاقے پر اب پورا پورا کنٹرول ہے۔کئی روز کے مذاکرات کے بعد طالبان نے اجازت دی کہ امریکی آفیسرز اپنے، عملے کی لاشوں کو نکال کر لے جا سکتے ہیں۔ لیکن آگ اتنی شدید اور تیز تھی کہ اس میں کسی لاش کی باقیات صحیح سالم بچ نہیں سکتی تھیں۔ نجانے یہ دو امریکی لاشیں کیسے پہچان لی گئیں۔ امریکہ کو یہ دھچکا بھی لگا ہے کہ اس کا وہ کمیونی کیشن سسٹم جو اس طیارے کے اندر آپریٹ کر رہا تھا اور جس کا نام BACN ”بیٹل فیلڈ ائربورن کمیونکیشن نوڈ“ (Battlefield Airborne Communication Node) تھا اس کی معلومات بھی طالبان کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔یہ BACN مواصلاتی سسٹم لاکھوں ڈالر کی لاگت سے تیار کرایا گیا تھا جو رئیل ٹائم جنگی کارروائی کی وڈیو اور آڈیو کوریج (فارسی اور پشتو زبانوں میں ترجمہ کرکے) زمین پر قائم امریکی ہیڈکوارٹر کو ارسال کرتا ہے…… اس طیارے کے اندر اور بھی کئی قسم کی تکنیکی معلومات اور آلات موجود تھیں جن کو اردو زبان کے قارئین کے لئے اگر ترجمہ کروں گا تو وہ خاصا ادق اور اجنبی ہو گا اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں (ختم شد)