5فروری یوم یکجہتی ئ کشمیرآزادی کی علامت
5فروری ایک علامتی دن ہے۔آزادی کی علامت کا کہ جس کے حصول کے لئے شمال مغربی ہندوستان میں،سلسلہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ایک جنت نظیروادی کے باشندے گزشتہ70 برس کے عرصہ سے زائد اپنی زندگیوں کے داؤ پر جدوجہد کر رہے ہیں۔
ہر سال5فروری کا دن مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔پاکستان میں اس روز سرکاری تعطیل ہوتی ہے،جبکہ دُنیا بھر میں جہاں کشمیری موجود ہیں، بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف پُرزور احتجاج کیا جاتا ہے۔گزشتہ20 برس سے5فروری کو پاکستان کے شہری اور مقبوضہ وادی کے باشندے شہدائے کشمیر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے اور اعادہ کرتے ہیں کہ وادی کی آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس بار مسئلہ کشمیر نے حقیقی معنوں میں مقتدر عالمی اداروں کی توجہ حاصل کی ہے اور پاکستان کی بھرپور مخلص کاوشوں سے وہ اہمیت حاصل کی ہے، جو اس مسئلے کے اُجاگر ہونے کے لئے ضروری تھی۔
5اگست2019ء کو بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے پوری وادی میں بدترین کرفیو نافذ کر دیا تھا۔مواصلاتی نظام کاٹ دیا گیا۔اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی۔جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے لوگوں کو روک دیا گیا اور پوری وادی کو چھ لاکھ سے زائد فوجیوں کی مرضی و منشا کے حوالے کر دیا گیا۔یہ فوجی دور دراز کی ریاستوں سے کشمیر میں لائے گئے ہیں جو کشمیری زبان سمجھتے ہیں نہ کشمیر کے تہذیب و تمدن سے واقف ہیں۔انسانی ہمدردی کے لفظ سے وہ ناآشنا ہیں۔کتنی ہی دِل شگاف کہانیاں سامنے آئیں گی، جب وادی سے کرفیو اُٹھایا جائے گا۔بھارتی حکومت کب تک اس صورتِ حال کو برقرار رکھے گی۔اس وقت پوری وای اُس جبر کے بوجھ تلے ہے، جو خوف سے جنم لیتا ہے۔بھارتی دہشت پسند لوگوں اور ان کے رہنماؤں کی روایتی بزدلی مقبوضہ وادی میں ظلم کی صورت میں عیاں ہوئی ہے۔ پورے ہندوستان میں ہر اُس آواز کو دبایا جا رہا ہے، جو موجودہ بھارتی رہنماؤں کے مذموم ارادوں کے خلاف فضا میں بلند ہوتی ہے۔بہرحال وادی کے لوگ سروں پر کفن باندھ چکے ہیں۔موت اب اُن کے لئے کوئی معانی نہیں رکھتی اور ہر قیمت پر وہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔آزادی کا نعرہ پوری وادی میں اس طرح گونج رہا ہے کہ شجر و حجر بھی اس نعرے سے گنگنا اُٹھے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے کشمیر کی صورتِ حال کے بارے میں عالمی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کا آغاز 5اگست ہی سے کر دیا تھا۔سفارتی سطح پر ہمارے متعلقہ لوگ اس طرح متحرک اور فعال ہوئے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ایوانوں میں مسئلہ کشمیر پر جمی برف پگھلنے لگی۔پاکستان کے نڈر اور شیر دِل وزیراعظم عمران خان نے خود کو اہل ِ کشمیر کا سفیر قرار دیا اور ہر فورم پر جہاں انہیں موقعہ ملا انہوں نے بھارت کے چہرے سے نام نہاد جمہوریت کا نقاب نوچ کر آر ایس ایس کا مکروہ چہرہ دُنیا پر عیاں کیا۔کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو اُجاگر کیا اور اہل ِ کشمیر کی جدوجہد ئ آزادی کو خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے دلیر وزیراعظم نے کشمیریوں سے اپنی وابستگی کا اظہار بغیر لگی لپٹی کے کیا اورکشمیر کی آزادی کو اپنے مقاصد کا اہم جزو قرار دیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ بھارت پر انتہا پسند فاشسٹ نظریہ کا قبضہ ہے،80 لاکھ کشمیری اور بھارتی مسلمان اس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
5فروری کا دن پاکستان اور کشمیر کے باہمی تعلق و روابط کو مضبوط اساس مہیا کرتا ہے۔یہ دن اُن ذمہ داریوں سے ہمیں آگاہ کرتا ہے جو بہ حیثیت آزاد قوم ہم پر عائد ہوتی ہیں کہ ہم اپنے محکوم و مجبور کشمیری بھائیوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، اور انہیں ذرا بھی احساس نہ ہونے دیں کہ آزادی کی جنگ میں وہ یکا و تنہا ہیں۔
بعض اوقات ایک تصویر ایسی بن جاتی ہے جو ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے۔لفظ وہ تاثر پیدا نہیں کرتے جو تاثر لمحوں میں ایک تصویر پیدا کر دیتی ہے۔مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں ایک شہید کی ماں اپنے بیٹے کی میت کے پاس بیٹھی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شہید پُرسکون نیند سو رہا ہے۔یہ تصویرPieta کے مجسمہ سے کہیں زیادہ دِل گرفتہ ہے۔غمزدہ ماں کی آنکھیں اپنے شہید بیٹے کے چہرے پر مرکوز ہیں۔جنم دینے سے لے کر میت گھر آنے تک کے واقعات اس کے ذہن کے پردے پر متحرک ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں۔وہ جانتی ہے کہ اس کا بیٹا اس کی یادوں میں زندہ رہے گا اور یہ بھی کہ اس کی موت قوم کی حیات ہے۔
”ہم ایسا کشمیر چاہتے ہیں جہاں ہر شخص کوئی ڈر یا خوف محسوس کئے بغیر سوچ سکے اور زندگی گزار سکے۔جہاں اُسے اپنی ترقی کے لئے پورے مواقع حاصل ہوں،جہاں انفرادی صلاحیتوں کے اُبھرنے پر کوئی احتساب نہ ہو۔جہاں لوگوں کو اپنے آپ پر پورا اعتماد ہو اور وہ کسی دیکھی یا آن دیکھی طاقت کے سہارے کی آس نہ لگائے ہوئے ہوں، جہاں کوئی مذہبی، نسلی اور اعتقادی تعصبات دِلوں کو مسموم نہ کرتے ہوں۔جہاں فکرو عمل کی دلیل راہ معقولیت پسندی ہو۔جہاں عورت کو غلامی کے بندھنوں سے آزاد کیا جا چکا ہو۔ جہاں مخصوص مراعات اور حاصل کرنے والے طبقے اور فرقے نہ ہوں۔جہاں تعلیم سب کے لئے مفت اور عام ہو۔ جہاں مذہب کو رعایت کی مہر نہ سمجھا جائے۔جہاں انسان کو سماجی اور سیاسی حقوق سے مستفید ہونے کے لئے پیدائش کے امتیاز کو روانہ رکھا جائے۔ جہاں ہر مرد اور عورت کو ترقی کرنے کا موقع حاصل ہو۔جہاں سرمایہ پرست اور مخصوص مفادات محنت کشوں کو لتاڑتے نہ ہوں۔جہاں سیاسی تفلیاں عوام کی لوٹ کھوسٹ کا باعث نہ بنتی ہوں۔جہاں جہالت کے بل بوتے پر مُلاوّں اور مذہبی جنونیوں کو فروغ حاصل نہ ہو،جہاں عقائد، فہم و فراست کی وقعت نہ گھٹاتے ہوں جہاں افلاس ماضی کی بات ہو اور عوام اچھا کھاتے ہوں،اچھا پہنتے ہوں،اچھی رہائش رکھتے ہوں اور پوری طرح سیر چشم ہوں“۔
(پریم ناتھ بزاز۔ تاریخ جدوجہد آزادیئ کشمیر)
”اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اصلی جنگ بھارتی سامراج اور کشمیری جمہوریت کے درمیان اور بھارتی حکمرانوں اور کشمیری عوام کے مابین ہے۔نہرو ہندوستانی عوام کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہیں۔پاکستان کی معاندانہ رائے عامہ کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے اور یہ آمر واقعہ ہے کہ اس سے فرقہ پرست اور رجعت پسند ہندوؤں میں ان کی پوزیشن زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔کشمیر کے متعلق ان کی پالیسی پر عالمی اخبارات کی مخالفانہ نکتہ چینی ان کے لئے باعث تشویش تو ہو سکتی ہے، مگر ان کو اقتدار سے ہٹا نہیں سکتی۔ جب تک ان کے ہم وطن ان کی پُشت پر ہیں، وہ بڑے آرام سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں گے۔بین الاقوامی معاہدات کی دھجیاں بکھیرے رہیں گے اور کشمیر کے ساتھ انصاف کرنے سے انکار کرتے جائیں گے۔ ہندوستان میں کوئی جماعت حتیٰ کہ بائیں بازو کے نام نہاد لوگ بھی کشمیری جمہوریت کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ان سب کا یہی ایک مطالبہ ہے کہ کشمیر کو بزورِ شمشیر اپنے ساتھ ملحق رکھا جائے اور کشمیر کے عوام کو خود اختیاری کا حق ہر گز نہیں ملنا چاہئے۔فرق صرف اتنا ہے کہ مختلف جماعتوں نے اپنے تلملائے ہوئے ضمیروں کی تسکین کے لئے اپنے عزائم پر رنگا رنگی کی لفاظی کا غلاف چڑھا رکھا ہے،مگر ان کے مقاصد نمایاں طورپر بظاہر ہیں۔ یعنی کشمیر کے لوگوں کو غلام بنا کر رکھنا!
جَن سنگھ کے لیڈر استصوابِ رائے کے متعلق بات چیت کو سرے سے پسند ہی نہیں کرتے۔ 9ستمبر کو سنگھ کے قائم مقام صدر مولی چندر شرما نے بیکانیز میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔”ہندوستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق قطعی اور ناقابل ِ تنسیخ ہے، لہٰذا استصوابِ رائے کے متعلق بات چیت کرنا سخت زہر ناک اور غیر پسندیدہ ہے“۔
(پریم ناتھ بزاز۔ تاریخ جدوجہد آزادیئ کشمیر)
کشمیر قرارداد
5اگست2019ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ تب سے اب تک وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ لوگ اپنی ہی وادی میں، اپنے ہی گھروں میں محبوس ہیں۔ بیرونی دُنیا سے وادی کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ اِکا دُکا خبریں موصول ہوتی ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔ روزمرہ کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ لوگوں کی گرفتاری اور ان پر بہیمانہ تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ایسی صورت حال میں پاکستان نے اس عزم کا درست اظہار کیا ہے کہ ہم آخری سپاہی، آخری گولی اور آخری سانس تک اہل ِ کشمیر کے ساتھ ہیں۔
آج اس موقع پر مَیں پاکستان کے مسیحی ہم وطنوں کی جانب سے حکومت ِ پاکستان کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کا مسیحی طبقہ ہر صورت اور ہر حال میں اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور انسان دشمن بھارتی حکومت کی ریشہ دوانیوں اور وادی میں موجود سات لاکھ غاصب بھارتی فوجیوں کی چیرہ دستیوں کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔
ہم پاکستان کے مسیحی اقوام متحدہ کے ذمہ داروں سے پُرزور التماس کرتے ہیں کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کے حوالے سے وادیئ کشمیر میں بسنے والوں کو استصوابِ رائے کا حق دیں اور لوگوں کی اپنی امنگوں کے تحت وادی کے نظم و نسق کو چلانے کا اہل قرار دیں۔
پاکستان کا مسیحی طبقہ بارسوخ ممالک سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ عمل میں لائیں اور کشمیریوں کو بھارتی درندگی سے نجات دلائیں۔
ہم پاکستان کے مسیحی دِل و جان سے اہل ِ کشمیر کے ساتھ ہیں۔
رائٹ ریورینڈ ڈاکٹر آزاد مارشل
بشپ آف رائیونڈ ڈائیوسس چرچ آف پاکستان
صدر نیشنل کونسل آف چرچز اِن پاکستان