اکمل صاحب مرحوم ہو گئے، یاد آتے رہیں گے!

اکمل صاحب مرحوم ہو گئے، یاد آتے رہیں گے!
اکمل صاحب مرحوم ہو گئے، یاد آتے رہیں گے!

  

گزشتہ چند روز سے عجیب سی پریشانی نے گھیر رکھا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کس امر کی بے چینی ہے۔ اتوار کی شب برادرم میاں حبیب کی صاحبزادی کی رخصتی تھی۔ماشاء اللہ مہمانوں کی کثیر تعداد تھی، دوستوں اور ملنے والوں سے بھی ملاقات ہوئی، لیکن یہاں بھی بے کلی رہی اور ہم نے پورا وقت ایک جگہ بیٹھ کر گزارا جہاں دوست آکر مل لیتے تھے۔ اگلے روز یہ اطلاع ملی کہ ہمارے محلے دار، سیر کے ساتھی، باغ و بہار حاجی مقبول احمد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رات ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی، خیال تھا کہ شاید قدرت کی طرف سے یہی اشارہ تھا(اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائیں) لیکن جب گھر واپس آکر لیٹے تو پھر بھی نیند اچاٹ سی تھی اور رات بھی کروٹیں بدل بدل کر ہی گزر گئی، صبح جب ناشتہ کے لئے بیٹھے اور موبائل سے فیس بک کا جائزہ شروع کیا تو برادرم عاشق جعفری کی پوسٹ نظر آ گئی۔ انہوں نے دکھ والی اطلاع شیئر کی تھی، سید اکمل علیمی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

ایک جھٹکا لگا، شدید صدمہ ہوا اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ بے چینی کیوں تھی، پھر خیال آیا کہ موبی (مرحوم کے بڑے صاحبزادے) نے ضرور اطلاع دی ہو گی۔ جب ویٹس ایپ کا جائزہ لیا تو سید ادیب (موبی) کا تفصیلی پیغام موجود تھا جس کے مطابق شاہ صاحب (اکمل) کو اتوار کی صبح دل کا دورہ پڑا، وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے اچانک بے ہوش ہو گئے، موبی نے ہسپتال ایمرجنسی سے رجوع کیا،ایمبولینس آکر لے گئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا کہ ان کا وقت پورا ہو گیا تھا، وہ چل بسے، اگلی اطلاع یہ تھی کہ ان کی تدفین جمعرات (4فروری) کو ایک بجے(امریکی وقت) ہوگی۔ یہی بے چینی اور یہی پریشانی تھی کہ ان کا میرا تعلق پانچ، چھ دہائیوں کا تھا، وہ ہمارے پیدائشی محلے اکبری دروازہ کے پہلو میں دہلی دروازہ کے تھے۔

ان سے علیک سلیک تھی۔ اسی دوران غالباً یہ 59 یا 60ء کا ذکر ہے۔ ہمارے علاقے میں پتنگوں اور آتش بازی کا بڑا کاروبار ہوتا تھا، ہمارے محلے دار محترم فتح محمد درزی (مرحوم) نے بھی اپنی ٹیلرنگ شاپ کے ساتھ پتنگوں اور آتش بازی کا کاروبار کر لیا تھا۔ یہ مہینہ بھی شب برأت کا تھا، چونکہ ان کا مکان ذاتی اور سہ منزلہ تھا، اس لئے مال بھی کافی رکھا تھا، ایک صبح اچانک ان کے آتشبازی والے سامان میں کسی چنگاری نے آگ بھڑکا دی اور آتش بازی نے بم کی صورت اختیار کر لی بہت زور دار دھماکہ ہوا، آگ لگ گئی۔ مکان گر گیا، بہت مشکل سے آگ پر قابو پایا جا سکا، فتح محمد درزی، ان کی اہلیہ اور بیٹا بھی جاں بحق ہو گئے تھے، المناک سانحہ تھا، ہم سب محلے داروں نے بھی مقدور بھر امدادی کاموں میں حصہ لیا تھا،

اسی روز دوپہر کے وقت ہم سب دوست معراج دین بٹ کی دکان پر بیٹھے بات کر رہے تھے کہ اکمل صاحب آ گئے، میں نے دور ہی سے ان کو پہچانا اور پھر وہ جائے وقوعہ سے ہو کر ہمارے پاس آ گئے اور ساری تفصیل میں نے ہی ان کو بتائی۔ اگلے روز امروز میں شائع ہونے والی خبر بہت زبردست تھی کہ تحریر میں روانی اور ادبی ذوق موجود تھا، اس کے بعد یہ راہ و رسم یوں بڑھ گئی کہ مجھے اپنے بزرگ حضرت علامہ ابوالحسنات کی ہدائت پر جمعیت علماء پاکستان کے پی آر او کی خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا، حضرت علامہ ابوالحسنات بانی صدر تھے اور میاں غلام قادر(میاں شجاع الرحمن، میاں ذکاء الرحمن اور میاں مصباح الرحمن کے والد) سرپرست اعلیٰ تھے۔ انہی فرائض کے حوالے سے مجھے اخبارات کے دفاتر آنا جانا ہوتا تھا اور امروز میں خصوصی طور پر اکمل علیمی صاحب سے نشست رہتی، عبداللہ ملک (مرحوم) سے بھی سلام دعا ہوتی، ان دنوں امروز میں عبداللہ ملک چیف رپورٹر، سید اکمل علیمی سینئر رپورٹر اور عالم نسیم (مرحوم) ہی رپورٹنگ میں تھے، اسی دوران عبداللہ ملک نے مجھے پیشکش کی کہ میں امروز کے لئے بھی کام کروں، ابتدا علاقائی خبروں سے ہوئی اور پھر مجھے باقاعدہ طور پر رپورٹنگ کے لئے کہا گیا اور عارضی طور پر (کالم کی بنیاد) کام شروع کرنے کو کہا گیا۔

چنانچہ جب کام کا آغاز کیا تو میں نے سابقہ تعلق کی بناء پر سید اکمل علیمی ہی سے درخواست کی کہ وہ کام بھی سکھائیں اور پھر انہوں نے یہ فرض سنبھال لیا اور میری تربیت کرتے رہے، ان کا انداز بہت اچھا تھا، وہ میری لکھی خبر کو پھینکتے نہیں تھے بلکہ اسی پر اچھے انداز سے تصحیح کر دیتے تھے۔ یوں مجھے اپنی تحریر کی خامیوں کا اندازہ ہوتا چلا گیا اور اکمل صاحب سے سماجی تعلقات کے بعد استادی شاگردی کا رشتہ قائم ہوا جو ایسے تعلقات میں بدلا کہ وہ ایک بڑے بھائی کا پیار دینے لگے اور یہ مضبوط رشتہ آج تک قائم ہے،شاہ جی (میں ان کو یہی کہتا تھا) اس حد تک سمجھاتے کہ علاوہ اور سوا میں کیا فرق ہے۔ انہوں نے باقاعدہ مثال دی کہ انگریزی کے Including اور Except کو پیش نظر رکھوں، چنانچہ یہ بات ذہن نشین ہوئی اور آج تک ہے، اسی طرح انہوں نے خبر کے انٹرو سے لے کر ساخت اور ہئیت تک کی تربیت بھی دی، مجھے یہ عادت کہ کم سے کم نوٹس لیں۔مواد کو ذہن میں رکھیں اور پھر خبر کی ترتیب یوں ہو کہ فقرے دہرائے نہ جائیں، چنانچہ یہ پھر فیچر، مضامین اور کالم تک لکھنے کی عادت بھی انہی سے مستعار ہے، وہ خود کوریج کا بھی دھیان رکھتے، چنانچہ شامکے بھٹیاں کا ڈبہ پیر میں نے دریافت کیا تو اگلے ہی مرحلے میں وہ اپنی سکوڈا کار پر میرے ساتھ شامکے بھٹیاں تھے۔ اسی طرح جنرل (ر) موسیٰ کے دور گورنر شپ میں جب پولیس مقابلے شروع ہوئے تو کئی مواقع پر وہ بھی ساتھ گئے اور خبر ان کی رہنمائی میں بنی۔

سید اکمل علیمی سے یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ وہ امریکہ رہ جانے کے بعد جب بھی لاہور آئے، ہر دم میں ہی ان کی خدمت میں حاضر رہتا، جب تک رہتے اپنے فرائض کے ساتھ ان کا ساتھ نبھاتا، ان کی دوستیاں بڑی پکی تھیں، پنجابی ادیب نواز صاحب سے مراسم گھریلو تھے اور ایسا کبھی نہ ہوا کہ وہ آئیں اور نواز (مرحوم) کے ساتھ وقت نہ گزاریں، یا پھر اے حمید سے نہ ملیں میں ہر دم ان کے ساتھ ہوتا تھا،1988ء میں مجھے امریکہ جانے کا موقع ملا تو ورجینیا میں انہی کا مہمان تھا، ہوائی اڈے سے گھر لے جاتے ہوئے، انہوں نے خصوصی طور پر ایک جنرل سٹور سے بکرے کا گوشت لیا، دکان دار کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔یوں ذبیحہ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا، میں پندرہ روز رہا،

ان دنوں میں روزانہ دو سے ڈھائی سو میل کی سیاحت ہوتی اور انہوں نے مجھے اپنے قریب کے سب اہم مقامات کی سیاحت کرا دی اور خصوصی طور پر ”لاہور“ لے کر گئے جو امریکی گاؤں ہے اور یہ انہی کی دریافت تھا، اکمل بڑے اچھے میزبان تھے۔ لاہور سے جانے والے ظہیر بابر، حمید جہلمی، عبدالقادر حسن، ضیاء الاسلام انصاری، نذیر ناجی اور بہت سے دوست ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے۔ 2005ء میں آخری بار لاہور آئے اور پھر نہ آ سکے۔ ان کی یادوں کے لئے ایک کتاب بھی کم ہے۔ ایسے مہربان کی وفات صدمے کا باعث نہ ہوگی تو کیا ہو گا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

(قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرے کالم کا عنوان ”یہ لاہور ہے“ استاد محترم سید اکمل علیمی سے مستعار ہے اور باقاعدہ ان سے اجازت لی تھی کہ ان کے امریکہ میں ہونے کے باعث یہ عنوان خالی تھا۔)

مزید :

رائے -کالم -