اقتصادی جنگ اور پاکستان
وقت تیزی سے بدل رہا ہے دنیا اب جنگی حکمتِ عملی تبدیل کر چکی ہے۔ نِت نئے نئے اتحاد بڑی تیزی سے جنم لے رہے ہیں، جہاں مختلف ممالک کے درمیان نئی حکمتِ عملی،سیاسی گٹھ جوڑ، وسائل کی تقسیم، مسائل کا ادراک، مستقبل کی منصوبہ بندی، فوجی تعاون، علاقائی سالمیت، جغرافیائی حدود کی حفاظت، آبی وسائل، تیل، گیس اور سائنس و ٹیکنالوجی میں خود کفالت جیسے معاملات درپیش ہیں وہاں اس سے بھی بڑھ کر معاشی ترقی اور تجارتی حجم میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ معاشی ترقی ہی اب تمام معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اگر کوئی بھی ملک اس حقیقت سے رو گردانی یا نظر چرانے کی جسارت بھی کرے گا تو وہ آنے والے چند سالوں میں اقوام عالم کے سامنے گروی رکھ لیا جائے گا۔
اس وقت معاشی جنگ دنیا بھر میں عروج پر ہے جو تیسری جنگ عظیم کی نئی شکل ہے۔طاقتور ممالک ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ ہر روز ایک دوسرے کو معاشی ابتری و شکست سے دو چار کرنے کے لئے منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں تاکہ معاشی جنگ میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ اس معاشی جنگ و جدل میں آنے والے دس سال بہت اہم ہیں کیونکہ جس تیزی سے معاشی طور پہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنے وسائل و معاشی مضبوطی کے لئے سر توڑ کوشیش کر رہی ہیں مگر جیت اسی قوم کی ہو گی جو مضبوط منصوبہ بندی، ٹھوس حکمت عملی اور ان تھک محنت کر کے میدان عمل میں کچھ مختلف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو گی۔ اس تماشہ کی وجہ سے دنیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کا ذکر میں بار ہا کر بھی چکا ہوں مگر یہ تقسیم بہت فطری ہے کیونکہ جب کوئی مظلوم کسی ظالم سے ٹکراتا ہے تو اس کی تیغ بلا خوف و خطر چلتی ہے اور اس میں بجلی کی چمک و آفاقی قوت قدرتی طور پر کار فرما ہو جاتی ہے اور اگر کوئی قوم ظلم و نا انصا فی کی حدوں کو چھو نے لگے تو اللہ اس قوم کو نیست و نابود کر دیتا ہے بے شک وہ سرکشی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا اور یہی اللہ کا نظام ہے مگر دوسری جانب قدرت کی طرف سے عدل و انصاف کی حد یہ ہے کہ جو کوئی بھی خدا کی مخلوق پر رحم کرے گا اور خلوص و لگن سے محنت کرے گا تو کامیابی بھی اسی کا مقدر ہو گی جو ایک اٹل حقیقت ہے۔
تاریخ نے گزشتہ ایک صدی میں بہت سی سپر پاور کا گمان رکھنے والی قوموں کو خاک و خون میں نہاتے دیکھا،راستے کی گرد ان کا مقدر ٹھہرا اور وہ آج بھی غلامی و محرومی کا شکار ہیں۔ کیونکہ اللہ کے لئے مچھروں، ابابیلوں اور وباؤں سے کام لینا قطعاً مشکل نہیں وہ ہر شے پر قادر ہے۔ بہرحال نئے سیاسی اُفق پر چین ایک شاہین کی طرح جھپٹنے کے لئے تیار ہے۔ اس دہائی کے آخر تک دنیا ایک نئی اْبھرتی ہوئی طاقت کو ماننے پر مجبور ہو گی کیونکہ اس وقت چین نے اپنے تجارتی حجم اور سرمایہ کاری میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چین نے نئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں امریکہ کو پچھاڑ دیا ہے۔
گزشتہ سال بیرون ملک مقیم کمپنیوں کی طرف سے امریکہ میں ہونے والی نئی سرمایہ کاری میں تقریبا نصف کے قریب کمی واقع ہوئی اور اقوام متحدہ ہی کے اعداد و شمار کے مطابق چینی فرموں میں براہ راست سرمایہ کاری 4 فیصد بڑھی، جو اْسے عالمی سطح پر نمایاں مقام پر لے آئی۔ اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی)نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ چین میں گذشتہ سال 163 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کے حصے 134 ارب ڈالر آئے ہیں جو امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
2019 ء میں امریکہ کی نئی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے نتیجہ میں 251 ارب ڈالر امریکہ کے حصے میں آئے تھے، جبکہ چین نے 140 ارب ڈالر حاصل کیے تھے، لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں قائم سنٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے مطابق چین جو فی الحال امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں پھنسا ہوا ہے، 2028ء تک دنیا کو مکمل طور پر پیچھے چھوڑ دے گا جس کے بعد چین کو تجارتی میدان میں شکست دینا ناممکن ہو جائے گا۔ دوسری طرف گوادر پروجیکٹ میں چین کی کاوشیں پاکستان کو معاشی بد حالی سے نکال کر دنیا کا اہم ترین معاشی حب بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں روس اور ایران سے گیس و تیل کے معاہدے، لداخ و کشمیر کے معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے، سب کی کامیابی کا وقت بھی کم و بیش اسی دہائی کے بعد سے شروع ہو گا۔اس وقت چین کی طرف سے پاکستان کی دفاعی، سفارتی و تجارتی امداد دنیا کی تاریخ بدل دے گی کیونکہ اسی بلاک میں چین و پاکستان کے علاوہ روس، ایران اور ترکی خطے کے اہم کردار ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معاشی بد حالی اس وقت عروج پر ہے۔ حالیہ رپورٹ میں مجموعی قرض 113 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے جس میں صرف 18 بلین ڈالر گزشتہ دو سالوں کا ہے۔کیونکہ جب تحریک انصاف کی حکومت نے چارج سنبھالا تو قرض 95 بلین ڈالر تھا جو آج بلندی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے
وزیراعظم کی معاشی ٹیم مکمل طور پر فیل ہو چکی ہے کیونکہ کبھی عوامی پارکوں کو گروی رکھنے کی بات کرتی ہے تو کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، جو ٹیم عام آدمی تک وسائل کی تقسیم کو یقینی نہ بنا سکے ان کی اہلیت پر سوال تو بنتا ہے، درحقیقت صورت حال حکومت کے کنٹرول میں نہیں، کیونکہ مہنگائی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، چور بازاری اس قوم کا مقدر بن چکی ہے اور حکومت اس سارے تماشے کو بڑے اطمینان سے دیکھ رہی ہے۔ شاید حکومت نے خاموشی میں ہی عافیت جانی ہے اس کے برعکس عالمی منظر نامے پر جو معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اْن سے سبق سیکھنا چاہیے آنکھیں بند کرنے سے کبوتر کو بلی کبھی نہیں چھوڑتی۔