سیاسی انتقام کا ثبوت لایئے!
پی ٹی آئی حکومت کو 18فروری کو اقتدار میں آئے پورے اڑھائی برس ہو جائیں گے۔اس دورانیئے پر بہت سے تبصرے ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ حکومت کا دفاع یہ ہے کہ اسے خزانہ خالی ملا تھا، لوگ انقلابی تبدیلی کے لئے تیار نہیں تھے اور وہ ادارے اور وہ قوتیں جو عوام کو روزمرہ کی زندگی میں مختلف پہلوؤں سے ریلیف دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں ان کو گزشتہ کئی عشروں سے کرپشن کی لَت پڑی ہوئی تھی اس لئے جب ایک غیر روائتی سیاسی پارٹی / گروپ برسراقتدار آیا تو اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا۔ حکومت لاکھ واویلا مچاتی رہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ مہنگائی پیدا کرنے والی فورسز کے آگے کسی کا بس نہ چلا۔
علاوہ ازیں عمران خان نے 2018ء کے الیکشنوں سے کچھ پہلے جن لوگوں کو یہ کہہ کر گلے لگایا کہ وہ Electable کلب کے اراکین ہیں، انہوں نے الیکشن میں خان صاحب کو جیسی تیسی کامیابی تو دلا دی۔ لیکن ان Electables کی کوالی فیکشنز میں جو بات ڈنکے کی چوٹ سب کو معلوم تھی وہ یہ تھی کہ جو لگاتا ہے وہ کھاتا بھی ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حکومت کے ”چند وفاداروں“ نے اپنے منشور کی پیروی کی کوشش کی لیکن عوامی فلاح و بہبود کی ڈوری تو کرپشن کی پتنگ سے بندھی ہوئی تھی۔اس لئے ان چند وفاداروں کی کوششوں کے باوجود اس منشور کے بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مہنگائی کا جِن قابو میں نہ آ سکا۔ آج تک وہی حال ہے۔ ان 2018ء کے الیکشنوں سے پہلے خان صاحب کو بہت وقت ملا تھا۔
لیکن 22سالہ اپنی جمہوری جدوجہد میں انہوں نے زمینی حقائق کا ادراک کرنے کی بجائے خوش گمانی پر تکیہ کیا اور نتیجے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج جو لوگ خان صاحب کی حکومت میں کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں وہ وہی Electables ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں مال لگانے اور پھر مال بنانے کے عادی تھے۔چند وفاداروں نے دیانت کا ڈھنڈورہ ضرور پیٹا لیکن عوامی توقعات کا وہ غبارہ جو عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں ایک کے بعد ایک بڑی امید کی ہوا سے بھر دیا تھا، زمین سے اوپر نہ اٹھ سکا…… عمران خان اپنی ذات کی محنت، دیانت،امانت، جدوجہد، مشقت اور رجائیت کے خول میں بند ہو کر بیٹھے رہے۔ لیکن لمحے تو گریزاں رہتے ہیں، وہ کسی ایک مقام پر رک کر پڑاؤ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ وقت گزرتا رہا اور گزرتا جا رہا ہے لیکن جس تبدیلی کا خواب خان صاحب نے قوم کو دکھایا تھا، وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ میں آج ڈھائی برس بعد ان کا چہرہ دیکھتا ہوں تو وہ بے شک مرجھایا ہوا نہیں لیکن لٹکا ہوا ضرور ہے۔ اس پر وہ بشاشت اور تازگی نہیں جو دو سال قبل تھی۔ تاجِ حکمرانی جس سر پر ہو وہ سکھ کی نیند نہیں سو سکتا۔ اور کوئی بھی حکومت ایک آدمی کے سہارے نہیں چل سکتی۔ وہ جب اقتدار میں نہیں تھے تو کہا کرتے تھے کہ تبدیلی ”اوپر“ سے آتی ہے اور ”نیچے“ تک جاتی ہے۔ لیکن آج اس تبدیلی کو اوپر سے نیچے لے جانے والی یا لانے والی مشینری بُری طرح ناکام ہو کر رہ گئی ہے۔
سینیٹ کے انتخابات سرپر ہیں۔ کرپشن کو روکنے کے لئے خان صاحب بالخصوص اور ان کے چند وفادار بالعموم اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ مساعی دونوں محاذوں (عدلیہ اور پارلیمان) پر جاری ہیں۔ عمران خان خود فرما چکے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ کون سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ووٹ کی خرید کے دھندے میں ملوث ہے۔ لیکن یہ دھندا کوئی نیا تھوڑی ہے۔ لوگوں کو تو عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے جنہوں نے لگایا تھا، اب اسے واپس وصول کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یادش بخیر خان صاحب نے اپنی پارٹی کے 20اراکین کو اس لئے پارٹی بدر کر دیا تھا کہ انہوں نے 5،5 کروڑ لے کر بددیانتی کا ارتکاب کیا تھا۔ وہ 20اراکین نکل تو گئے لیکن مستقبل میں ان راہوں کے مسافروں کو خبردار بھی کر گئے۔ میرا خیال ہے کہ اب پی ٹی آئی نے اسمبلی کے ہر رکن کو 50،50کروڑ دینے کا جو اعلان کیا ہے وہ Electables کی دیرینہ روایات کا تسلسل ہے۔ اب ان حضرات کو تسلی ہو رہی ہے کہ جو لگایا تھا، بالآخر اس کو وصول کرنے کے دن آ رہے ہیں۔
ایسے میں استعفیٰ دینے کا خیال کسی گاؤدی یا احمق ہی کو آ سکتا ہے!…… وہی گنگا جو پچھلی حکومتوں کے ادوار میں بہہ رہی تھی، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی رواں دواں رہے گی……اس کے ساتھ ہی میرا خیال یہ بھی ہے کہ ماضی میں عمران خان جن مواعید کو کرپشن کے فلڈ گیٹ سمجھتے تھے اب انہیں خود کھولنے کی شروعات بھی کرنا پڑیں گی…… اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن کی جو تعریف (Definition) خان صاحب اور ان کے چند وفاداروں کے ذہنوں میں تھی اس پر نظرثانی کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ لفظ ”نظرثانی“ شاید میرے تجزیئے کی ترجمانی نہ کر سکے اس لئے اسے ریورسل کہہ دوں تو شاید بجا ہو…… پنجابی زبان میں کہا جائے گا کہ ”آنے والی جگہ“ پر واپسی کا دور آنے والا ہے!
آج کل کئی اور اصطلاحیں بھی زبان زدِ الیکٹرانک میڈیا ہیں۔ کھوکھر پیلس کے جزوی انہدام سے بات شروع ہوئی تھی اور خواجہ آصف کے سوسائٹی دفاتر تک چلی گئی۔ یہ ’محل‘ اور یہ ’ماڑیاں‘ (دفاتر) جن زمینوں پر تعمیر کئے گئے تھے، وہ سرکاری زمینیں تھیں جن پر قبضہ کرکے کئی سروس سٹیشن / پٹرول پمپ، فیکٹریاں اور پلازے تعمیر کر دیئے گئے۔ پی ٹی آئی نے دو سال کی تحقیقات کے بعد ان قبضہ ہائے غاصبانہ کا پتہ چلایا اور ہزاروں ایکڑ زمین ان رسہ گیروں (Land Grabers) سے واگزار کرا لی گئی اور 24ارب روپے بھی ان سے وصول کرکے خزانہء عامرہ میں جمع کروا دیئے گئے۔ مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کل ایک پروگرام میں ایسے 36افراد کے نام اور ان کے ’کارناموں‘ کی تفاصیل بتا رہے تھے۔یہ تفصیلات اتنی واضح اور نمایاں تھیں کہ بقولِ مشیرِ داخلہ ان پر کسی قسم کا شک اگر ہو سکتا تو کیا حکومت وہ سرکاری زمینیں واگزار کراو سکتی اور اربوں روپے واپس لے سکتی تھی؟…… یہ ساری تفصیل الیکٹرانک میڈیا پر آ چکی ہے اور اپوزیشن اس کو ’سیاسی انتقام‘ کا نام دے رہی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا عجیب و غریب سیاسی انتقام ہے۔ لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور سرگودھا میں تعمیر شدہ عمارات کی تخریب و انہدام دیکھ کر مجھے پرانی انڈین فلمیں یاد آ گئیں جن میں اس قسم کی کارروائیاں دکھائی جاتی تھیں۔ وہ اگرچہ مصنوعی طرز کے اسٹوڈیوز میں عکس بند کئے ہوئے انہدامات ہوتے تھے لیکن دیکھنے والے فلم بینوں کے سلگتے جذبات کی تشنگی فرو کرتے تھے۔
اپوزیشن دھمکی دے رہی ہے کہ ان ساری کارروائیوں کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور جب ہماری باری آئے گی تو ان کا گِن گِن کر حساب لیا جائے گا۔ ایسا ہوگا یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ Electables کی کوالی فیکشنز صرف یہ نہیں ہوتیں کہ ان کی جیبیں بھاری ہوتی ہیں بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کو اپنے حلقے کے ووٹرز کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ یہ تائید کیسے لی جاتی ہے، اس کی داستان دراز ہو جائے گی اس لئے اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے اور یہ جو پورے معاشرے کے کرپٹ ہونے کا لیبل پاکستان پر لگایا جاتا ہے اس کی سمجھ بھی آنے لگتی ہے۔ یہ Electablesپٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری تک رسائی رکھتے تھے اور تھانیدار سے لے کر آئی جی پولیس تک ان کی مٹھی میں ہوتے تھے۔ اگر لفظ ”ان“ کی مزید تحقیق کرنی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ ان سے مراد سیاسی ناخدا تھے جن کی ملی بھگت کے بغیر ہزاروں ایکڑ اراضی کا ہتھیانا اور ان پر ناجائز تعمیرات کھڑی کرنا کس طرح ممکن تھا؟
ملک کی 74سالہ تاریخ میں چار بار مارشل لاء لگا۔ لیکن اگر اس مدت میں سے نصف مدت جمہوریت کے نام کر دی جائے تو کیا چار عشروں تک کسی جمہوری ادارے کو یہ خیال نہیں آیا کہ سرکاری اراضی پر غاصبانہ قبضہ تو ایک بات ہے۔ اگر یہ زرعی مقاصد کے لئے ہوتی تو معاملہ اور ہوتا لیکن اس زمین پر تو فیکٹریاں، کارخانے، پلازے اور سوسائٹیاں / کالونیاں بھی تعمیر کی گئیں ……
مارشل لاء فوج لگاتی ہے۔ چنانچہ حکومتِ وقت کو یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ ملک کے مختلف شہروں / چھاؤنیوں میں جو ڈیفنس ہاؤسز اتھارٹیز (DHAs) بنی ہوئی ہیں اور ان میں ہزاروں ایکڑ زمین پر کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کیا ان میں ایسی زمینیں بھی ہیں جو سرکاری اراضی کی ذیل میں آتی تھیں اور فوج نے ان پر ناجائز قبضہ کرکے مکانات تعمیر کئے؟…… اگر ایسا ہوتا تو شاید کوئی ٹی وی چینل فوراً یہ خبر بھی لگاتا کہ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، بہاولپور، راولپنڈی، اسلام آباد، اوکاڑہ، ملتان، رحیم یارخان، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں جو ڈیفنس کالونیاں (DHAs) بنی ہوئی ہیں، ان کی بھی خبر لی جائے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے فوج جب کسی شخص، ادارے یا حکومت سے کوئی زمین خریدتی ہے تو اس کی باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے اور ایک کنال زمین بھی ایسی نہیں جو ناجائز قبضے کی ذیل میں آتی ہو…… کیا ان 36لوگوں میں جن کی فہرست مشیرِ داخلہ ایک ٹی وی چینل پر دکھا رہے تھے اور جن کی تفصیل سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، کوئی ایک فوجی آفیسر ایسا بھی ہے جس نے ناجائز خرید و فروخت کا اہتمام کرکے وہی کام کیا ہو جو ہمارے سیاسی اکابرین کرتے رہے ہیں؟
…… یہ سوال بڑا اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سارے ادارے کرپشن کا شکار نہیں ہوئے اور جو نہیں ہوئے ان کی قدر کرنی چاہیے۔ فوج کوئی مقدس گائے نہیں لیکن کیا اس کے دامن پر کوئی ایک دھبہ بھی Land Grabing کا ہے؟…… اگر ہے تو گیارہ پارٹیوں کی اپوزیشن اس طرف بھی توجہ فرمائے!!