کیا مشکل ہے!

 کیا مشکل ہے!
 کیا مشکل ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نامراد کورونا پھر سے لوٹ آیا ہے۔ گھر کا ہر دوسرا فرد متاثر ہے۔ بچوں کو بھی وائرس نے نہیں چھوڑا ہے۔ ویکسین لگوانے والے افراد بھی بخار، نزلہ، کھانسی میں مبتلا ہیں۔ شکر ہے۔ کورونا وائرس کی یہ قسم ویکسی نیشن کروانے والوں کو زیادہ تنگ نہیں کر رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ ان کی بچت ہو گئی ہے۔ خاکسار کو پچھلے سال نومبر میں کورونا ہوا تھا۔ پھیپھڑے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک ماہ بعد مکمل طور پر صحت یابی ممکن ہو سکی تھی۔ خاکسار کی گزشتہ 4 دن سے طبیعت ناساز ہے۔ 101 بخار، ناک بند، فلو، گلے میں خراش اور ہلکی کھانسی کی شکایت پر ڈاکٹر صاحب نے ازیتھرومائسن 250 ملی گرام کے دو کیپسول روزانہ 5 دن اور بخار کے لئے پیناڈول کی گولی کے ساتھ بھاپ لینے اور مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے خون کے ٹیسٹ یا ایکسرے کروانے کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لگتا تو یہ اومی کرون ہی ہے چونکہ آپ ویکسین لگوا چکے ہیں۔ اس لئے فکر کی بات نہیں ہے۔ ہاں اگر 4 دن تک بخار نہ اترا اور طبیعت ناساز ہی رہی تو سٹیرائیڈ لینے میں کوئی حرج نہ ہے۔ اس کے جادوئی نتائج آ رہے ہیں لیکن یاد رہے ذیابیطس یعنی شوگر کے مریض سٹیرائیڈ لینے پر اپنی شوگر کا لیول ضرور چیک کرتے رہیں۔


کہنے کو تو اومی کرون نزلہ، زکام، بخار کی طرح کی علامات والا وائرس ہے لیکن جس کو ہو جاتا ہے۔ اس کو لگ پتہ جاتا ہے۔ خاکسار اپنا ذاتی تجربہ لکھ رہا ہے۔ میرے گھر پر پہلے چھوٹے بچے کو ہوا۔ ساتھ ہی زوجہ محترمہ کو ہوا۔ پھر مجھے اور بیٹی کو ہو گیا ہے۔ محلے میں ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ اومی کرون کے پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے۔ ان کے لئے اومی کرون بری خبر بن سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اومی کرون کے برے اثرات سے بچنے کے لئے فوری ویکسی نیشن کروائی جائے تاکہ بدبخت کورونا جو لاکھوں افراد کو نگل چکا ہے۔ ہمارے کسی پیارے کو اپنے ساتھ نہ لے جائے۔ ہمیں خود اپنا خیال بھی رکھنا ہے اور دوسروں کا تو سب سے پہلے رکھنا ہے لیکن ہم بدبودار اور زوال پذیر معاشرے کی باقیات ہیں۔ زلزلے، سیلاب، آفات، وبائیں ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی ہیں۔ خیر سے جس طرح ہم نے کورونا کی پہلی، دوسری لہر میں ماسک، سینی ٹائزر غائب کر دئیے تھے۔ ادویات بلیک مارکیٹنک کے ہمراہ پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں کی کھال اتار کر بے حسی کی انتہا کر دی تھی۔ ایک بار پھر جہنم کدہ پیٹ کے ہاتھوں مجبور اور لاچار، انسانیت کے سوداگروں نے بازار میں پیناڈول گولی کی قلت کر دی ہے۔ حکومتی اکابرین پیناڈول کی کمی کو فوری طور پر دور کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے بھیڑیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے احکامات صادر فرما چکے ہیں۔ حکومت ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت سزاوں کا قانوں بھی پاس کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیونکر آٹا، چینی، کھاد اور ادویات پلک جھپکنے میں ناپید ہو جاتی ہیں۔

پوچھنا یہ تھا۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے مسٹر سپرمین، سپائڈرمین ہیں یا کوئی غیبی مخلوق یا وہ سارا مال عمرو عیار کی زنبیل میں انڈیل دیتے ہیں یا ان کے جنات سے رابطے ہیں یا قانون کے رکھوالوں کی آنکھوں میں ایسے آئی ڈراپ ڈال دیتے ہیں کہ سب وقتی طور پر اندھے ہو جاتے ہیں اور وہ چھلاوے راتوں رات آٹا، چینی، کھاد سمیت ادویات کی بوریاں غائب کر دیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دیتے ہیں۔ ویسے کمال ہے۔ ایسی لاجواب کہانیاں سنانے اور سننے والوں پر جو بھنگ پی کر خود ایسے مست ہوتے ہیں ان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک سب اچھا کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور ہم اپنی اعلیٰ روایات کے امین ہیں، پرانے زمانے میں بادشاہ سلامت کے دربار میں ایک شاعر صرف مدح سرائی اور قصیدہ گوئی کے لئے مختص تھا۔ بالکل اسی طرح اپنی اعلیٰ اقدار پر قائم رہتے ہوئے۔ فی زمانہ مالشیوں، پالشیوں نے کام کو چُک کے رکھا ہوا ہے کہ حضور والا! آپ پہلے کہاں تھے؟ قوم تو رل گئی تھی۔ آپ جیسا مسیحا تو پہلے آنا چاہیے تھا۔ یہ آٹا، چینی، کھاد، ادویات کی ذخیرہ اندوزی کو نکیل ڈالنا آپ جیسی قد آور شخصیت کا کام تھوڑا ہے۔ آپ جناب اپنا وقت ایسی فضولیات پر ضائع نہ کریں۔ ہم اس مافیا کے خلاف سالوں سے لڑ رہے ہیں مگر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ یہ مادر زاد ایک دن اندر ہوتے ہیں تو کچھ دنوں کے بعد ضمانت کروا کر ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ سرکار! آپ بس اپنے ٹینکوں کا رخ اپوزیشن کی طرف رکھیں۔ باقی ہم سب سنبھال لیں گے۔ 


یہاں پر مجھے اپنے ایک دوست کی بتائی بات یاد آ گئی ہے کہ پنجاب کی ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت جب اپنے گاؤں پہنچے۔ ان کا مزارع گندم کی باقیات جلا رہا تھا۔ اعلیٰ ترین سرکاری افسر نے کہا۔ تمہیں معلوم ہے کہ فصلوں کو جلانے پر تمہارے خلاف ایف آئی آر کٹ جائے گی۔ اس مزارع نے کہا۔ جناب! آپ ہی میری ضمانت کروائیں گے۔ وہاں پر موجود ایک ملازم نے کہا کہ سر اس کے خلاف تو ایف آئی آر کٹوانے کی نوید سنا دی گئی ہے۔ ذرا قصبے میں کھاد کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کچھ کیجئے جو دن دیہاڑے بنا کسی ڈر اور خوف کے انتہائی مہنگے داموں بلیک میں کھاد بیچ رہے اور غریب کسان کڑوی گولی کھانے پر مجبور ہے۔ اس اعلیٰ افسر کا یہ سننا تھا کہ سرکاری مشینری حرکت میں آ گئی۔ اسٹنٹ کمشنر نے چھاپے مارنا شروع کر دئیے۔ ذخیرہ اندوزوں کی تو جیسے ہوا نکل گئی۔ بیوپاریوں نے راتوں رات کھاد بیچنے کے لئے کسانوں کی منت ترلے کرنا شروع کر دئیے مطلب لینے کے دینے پڑ گئے۔ 


سوال یہ ہے کہ عوام کے بتانے پر ہی اعلیٰ سرکاری حکام ایکشن میں کیوں آتے ہیں؟
قصبہ، تحصیل ہو یا ضلع بچے بچے کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے شہر میں کتنی فیکٹریاں، کتنی شوگر ملیں اور کتنے میڈیکل اسٹور ہیں۔ ایک فیکٹری میں کتنا مال بنتا اور نکل کر کہاں جاتا ہے تو پھر ذخیرہ اندوزی کیسی؟ دراصل ہماری نیت صاف نہیں ورنہ قانون کے سامنے تو بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔ 
اس حوالہ سے ارباب اختیار کو میرا قیمتی مشورہ ہے کہ خفیہ ایجنسیز کو فعال کریں۔ علاقے میں خصوصی طور کھوجیوں کی خدمات حاصل کریں جو اپنے ٹاؤن کی ”ایچی بیچی“ بارے اعلیٰ حکام کو رپورٹ پیش کریں۔ لگے ہاتھوں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے کا نام صیغہ راز میں رکھنے کے ساتھ اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے اور پکڑے جانے والے ذخیرہ اندوزوں کی تصاویر پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر بار بار دکھائی جائیں اور ان ناسوروں کی ضمانت نہ لی جائے۔ اس میں کیا مشکل ہے؟ ایک بار کر کے تو دیکھئے۔ قوم آپ کے گن گائے گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -