ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی آرزو میں( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی ...
 ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی آرزو میں( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  

چند منٹ بعد کسی شیرخوار کے دہاڑنےکی آواز آئی مگر جلد ہی یہ چیخیں مرزا کی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کر نیند کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد مرزا اپنےنقش فریادی کو سینہ سے چمٹائے میرے پاس آئے اور انتہائی لجاجت آمیز لہجےمیں بولے، 

”معاف کیجئے! آپ کو تکلیف تو ہوگی۔ مگر منو میاں آپ کی چارپائی کے لیے ضد کر رہےہیں۔ انھیں دوسری چارپائی پر نیند نہیں آتی۔ آپ میری چارپائی پر سو جائیے، میں اپنی فولڈنگ چارپائی پر پڑ رہوں گا۔“ 

میں نے بخوشی منو میاں کا حق منومیاں کو سونپ دیا اور جب اس میں جھولتے جھولتے ان کی آنکھ لگ گئی تو ان کے والد بزرگوار کو زبان تالو سے لگی۔ 

اب سنئے مجھ پر کیا گزری۔ مرزا خود تو فولڈنگ چارپائی پر چلے گئے مگر جس چارپائی پر مجھ خاص منتقل کیا گیا۔ اس کا نقشہ یہ تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور ٹانگیں احتیاط سے تہ کرکے بالترتیب سینہ اور پیٹ پر رکھنی پڑیں۔ اس شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے یوں دو چشمی ھ بنا، یونانی پروقراط کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری چھوٹی۔ ٹھنگنے مہمان کو وہ لمبی چارپائی پر سلاتا اور کھینچ تان کر اس کا جسم چارپائی کے برابر کر دیتا۔ اس کے برعکس لمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی دیتا اور جسم کے زائد حصوں کو کانٹ چھانٹ کر ابدی نیند سلا دیتا۔ 

اس کے حدوداربعہ کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہوگا کہ انگڑائی لینے کے لیے مجھے تین چار مرتبہ نیچے کودنا پڑا۔ کودنےکی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی ”درمیانہ“ تھی۔ یہاں درمیانہ سے ہماری مراد وہ پست بلندی یا موزوں سطح مرتفع ہی، جس کو دیکھ کریہ خیال پیدا ہو کہ، 

نہ تو زمیں کے لیے ہےنہ آسماں کےلیے 

گوکہ ظاہر بین نگاہ کو یہ متوازی الاضلاغ نظر آتی تھی مگر مرز انے مجھے پہلےہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارش سے پیشتر یہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جو کان آ گئی تھی، اس سے مجھے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس لیےکہ مرزا نے ازراہ تکلف ایک پائے کے نیچےڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتا رکھ کر سطح درست کر دی تھی۔ میرا خیال ہےکہ تہذیب کے جس نازک دور میں غیور مرد چارپائی پر دم توڑنے کی بجائےجنگ میں دشمن کے ہاتھوں بےگوروکفن مرنا پسند کرتےتھے، اسی قسم کی مردم آزار چارپائیوں کا رواج ہوگا۔ لیکن اب جب دشمن سیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دہ ہو گئی ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اور باعزت طریقےدریافت ہو گئے ہیں۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ہاں ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی آرزو میں! بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے جو بساطِ محفل بھی ہے اور مونسِ تنہائی بھی۔ اس کے سہارے وہ تمام مصائب انگیز کر لیتی ہیں۔ خیر مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ مئی جون کی جھلسا دینے والی دوپہر میں کنواریاں بالیاں چارپائی کے نیچے ہنڈیا کلہیا پکاتی ہیں اور اوپر بڑی بوڑھیاں بیتے ہوئے دونوں کو یاد کر کے ایک دوسرےکا لہو گرماتی رہتی ہیں (قاعدہ ہےکہ جیسے جیسے حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اور بھی سہانا معلوم ہوتا ہے!) اسی پر بوڑھی ساس تسبیح کے دانوں پر صبح و شام اپنے پوتوں اور نواسوں کو گنتی رہتی ہے اور گڑگڑا گڑگڑاکر دعا مانگتی ہےکہ خدا اس کا سایہ بہو کے سر پر رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیر سے بہری بھی ہے۔ اس لیے بہو اگرسانس لینے کے لیےبھی منہ کھولے تو گمان ہوتا ہے کہ مجھے کوس رہی ہوگی۔

قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کا تکیہ بنائے اٹواٹی کھٹواٹی لےکر پڑتی تھی اور آج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سےہاتھ نکال کرپانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اور گشتی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنےبچوں اور سوکنوں کی تعداد پوچھتی ہیں۔ لیکن جن بھاگوانوں کی گود بھری ہو، ان کے بھرے پرے گھر میں آپ کو چارپائی پر پوتڑے اور سویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظر آئیں گی۔

گھٹنیوں چلتے بچے اسی کی پٹی پکڑکر میوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اور رات برات پائینتی سے مدمچوں کا کام لیتے ہیں۔ لیکن جب ذرا سمجھ آ جاتی ہےتو اسی چارپائی پر صاف ستھرے تکیوں سےلڑتے ہیں۔

نامور پہلوانوں کے بچپن کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلےگا کہ انھوں نے قینچی اور دھوبی پاٹ جیسے خطرناک داؤاسی محفوظ اکھاڑے میں سیکھے۔ (جاری ہے )

نوٹ : مشتاق احمد یوسفی کی تحریر " چارپائی اور کلچر " سے اقتباس 

مزید :

لافٹر -ادب وثقافت -