برٹرینڈ رسل اور اس کے دوست سمجھتے تھے کہ جہالت، وحشت، درندگی اور جنگ جلد ہی قصہ پارینہ بن جائیں گے

 برٹرینڈ رسل اور اس کے دوست سمجھتے تھے کہ جہالت، وحشت، درندگی اور جنگ جلد ہی ...
 برٹرینڈ رسل اور اس کے دوست سمجھتے تھے کہ جہالت، وحشت، درندگی اور جنگ جلد ہی قصہ پارینہ بن جائیں گے

  

تحریر: ظفر سپل

قسط:112

چودہ، پندرہ سال کی عمر میں وہ مذہب کی طرف شدت سے راغب ہوا اور اپنے اتالیق کے ساتھ خدا، جبروقدر اور ابدیت پر مکالمہ کرتا رہا۔ مگر تین سال کے غور و فکر کے بعد اس نے ابدیت کو مسترد کر دیا۔ علت اول کی دلیل کو رد کرنا اس کے لیے ابھی مشکل تھا، اس لیے وہ وجودِ باری تعالیٰ کا قائل رہا۔ مگر جب اس نے سترہ سال کی عمر میں اسٹورٹ مل کی سوانح حیات پڑھی تو ہل گیا۔ مل نے لکھا تھا ”میرے باپ نے مجھے بتایا کہ اس سوال کا جواب ممکن نہیں ہے کہ مجھے کس نے بنایا۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کو کس نے تخلیق کیا“۔

نیک اطوار، شرمیلا اور گوشہ نشین برٹرینڈرسل، عمر تقریباً سترہ سال ۔ وہ اب تک ٹینی سن، بائرن اور شیلے کا مطالعہ کر چکا تھا۔ اب اس نے اپنے باپ کے دوست اور اپنے روحانی باپ اسٹورٹ مل کا جم کر مطالعہ کیا۔ ریاضی سے اسے شروع دن سے عشق تھا۔ مگر جب یقینی صداقت کے حصول کا مسئلہ درپیش ہوا تو اسے لگا کہ ریاضی اس کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکتی اس لیے کہ اس کا تو آغاز ہی مقدمے اور ان اولیات (Basics) سے ہوتا ہے جنہیں بلا دلیل قبول کرنا ضروری ہے۔ رفتہ رفتہ بات الہیاتی مسائل کی کشمکس سے ہوتی ہوئی فلسفے تک آن پہنچی۔ نمایاں وجہ وہی صداقت کی جستجو تھی۔

اکتوبر 1890ءمیں وہ کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ یہاں اس نے پہلے تین سال ریاضی اور چوتھے سال فلسفے کا مطالعہ کیا۔ یہیں اس کی ملاقات معروف ریاضی دان پروفیسر وائٹ ہیڈ (Whitehead) سے ہوئی، جو اس کی ذہانت سے خاص طور پر متاثر ہوا۔ رسل کے گھر کے ماحول میں جس قدر روایت پرستی اور گھٹن تھی، کیمبرج کی دنیا اسی قدر آزاد اور دلچسپ تھی۔ یہیں اسے ایسے دوستوں کا حلقہ ملا، جو خوش اطوار، ذہین اور سنجیدہ تھے اور ان کا مشغلہ اخلاقیات، سیاسیات، فلسفہ اور شاعری کے موضوعات پر گفتگو کرنا تھا۔ یہ لوگ انسان کے مستقبل کے بارے میں نہایت پرامید تھے اور سمجھتے تھے کہ جہالت، وحشت، درندگی اور جنگ جلد ہی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور سامراجیت اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ انہی دنوں اس کی ملاقات میک ٹیگرٹ سے بھی ہوئی اور وہ اس کا دوست بن گیا۔ وہ میک ٹیگرٹ کے خیالات سے بہت متاثر ہوا۔

کیمبرج میں قیام کے آخری سال، 1889ءکے موسم سرما میں رسل کی ملاقات ایک امریکی دوشیزہ الیس سمتھ (Alys Smith) سے ہوئی۔ الیس کا تعلق مذہبی مبلغوں کے خاندان سے تھا۔ رسل پہلی ہی ملاقات میں اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر سترہ سال اور الیس کی عمر بائیس سال تھی۔ رسل المناک تنہائی کا مارا ہوا تھا اور صنفِ نازک کے بارے میں اس کا جذباتی تجربہ گھر کی ایک کنیز کے بوسے تک محدود تھا۔ حسین و جمیل الیس سے میل ملاپ بڑھا تو عشق کی آگ دونوں طرف بھڑک اٹھی۔ مگر یہ افلاطونی قسم کی محبت تھی اور رسل ہمیں یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ سے جسمانی تعلق کی شعوری خواہش کبھی محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ ایک رات الیس کے ساتھ ایک جنسی خواب نے اسے دکھ میں مبتلا کر دیا۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ 4جنوری 1894ءکے ایک نہایت سرد دن، جب برفباری نے ماحول کو پراسرار طور پر جذباتی بنا دیا تھا، وہ لکھتا ہے ”۔۔۔پھر ہم کھانے کے وقفے کے سوا دن بھر بوس وکنار میں مشغول رہے“۔ 13دسمبر1894ءمیں رسل نے الیس سے شادی کر لی۔ اس وقت اس کی عمر بائیس سال تھی۔ الیس کا خاندان اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ سو، اس کی کہن سالہ روایت پرست دادی کو یہ رشتہ قبول نہیں تھا مگر اب تو یہ ہو چکا تھا۔(جاری ہے )

نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -