مارشل لا ءسے وابستگی کے ادب پر اثرات

مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
آخری قسط
صدیق سالک جنرل ضیاءالحق کی حکومت کا حصہ رہے اس بناءپر صدیق سالک کی ادبی حیثیت کو مارشل لاءسے وابستگی کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے- اس سلسلے میں سالک بہت غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے ادبی قدمیں ان کے منصب کا بھی حصہ ہے- ادبی حلقوں نے سالک کی ایک آمر حکمران سے وابستگی کو مستحسن نہیں سمجھا اسی لیے بعض لوگ انہیں خالص ادیب سمجھنے میں تامل سے کام لیتے ہیں- تاریخ کے جھروکوں میں نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حاکم وقت سے وابستگی صرف سالک کی ذات تک محدود نہیں- ہماری کلاسیکی شاعری دربار کی پروردہ رہی ہے- اس دور میں شاعر دربار سے وابستہ ہو کر ہی شاعری کرتا تھا لیکن آج کے دور میں کلاسیکی شاعری کی قدرو قیمت دربار سے وابستگی کی بناءپر کم یا زیادہ نہیں ہوتی ہم میر ‘ غالب جیسے شاعروں کو اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ درباری شاعر تھے بلکہ ان کا فن ان کے ادبی مرتبے کا تعین کرتا ہے چنانچہ حاکم وقت سے وابستگی ایسا عیب نہیں ہے کہ جس کی بناءپر کسی تخلیق کار کے فن کو بہتر یا کمتر قرار دیا جائے-صدیق سالک کی وفات کو ابھی صرف اٹھارہ برس گزرے ہیں-وقت کے سیل رواں میں یہ عرصہ بہت معمولی حیثیت رکھتا ہے- اس لیے لوگ ابھی تک انھیں اسی تناظر میں دیکھتے ہیں سالک کے ادبی ذخیرے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سالک کی زیادہ بہتر تخلیقات مارشل لاءسے پہلے سامنے آئیں مثلاً ”ہمہ یاراں دوزخ‘ ‘"Witness to Surrender"”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ اگرچہ1979ءمیں شائع ہوئی لیکن یہ انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے اس لےے اسے بھی مارشل لاءسے پہلے کی کتاب ہی سمجھا جائے گا- اس کے علاوہ ”سلیوٹ“ چونکہ ان کی پوری عسکری زندگی کی کہانی ہے اس لیے اسے کسی خاص دور سے وابستہ نہیں کر سکتے ان کتابوں کا تقابل مارشل لا ءکے بعد کی کتابوں ”تادم تحریر“، ”پریشر ککر“ اور ”ایمرجنسی“ سے کریں تو فنی لحاظ سے اول الذکر کتابیں زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہیں- اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ سالک کا ادبی مرتبہ حاکم وقت سے وابستگی کامرہون منت ہے- اس منصب نے تو ان کے اندر کے ادیب کو زیادہ پابند کیا جابجا ان کے قلم کو پابہ زنجیر کیا-
اس منصب نے پابندیٔ اظہار کے علاوہ سالک کے لیے وقت کی کمی کا مسئلہ بھی پیدا کیا- آئی- ایس- پی- آر کے سربراہ ہونے کے علاوہ صدر کے پریس سیکرٹری اور تقریر نویس ہونے کے باعث سالک کے لیے ادبی حسن کاری اور تحریر کی موشگافیوں کے لیے وقت نہیں تھا- سالک کے اہل خانہ اور احباب کے مطابق انہوں نے مارشل لاءکے بعد اپنی ساری کتابیں رمضان المبارک کے دورانلکھیں- سالک کے قریبی دوست مدیر اردو ڈائجسٹ الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں:
”مجھے ایک بار بتایا کہ میں تمام سال کتاب کے لوازم جمع کرتا رہتا ہوں اور انھیں ماہ مضان میں کتاب کی شکل دیتا ہوں تراویح کے بعد لکھنے بیٹھ جاتا ہوں اورسحری تک لکھتا رہتا ہوں- یوں ایک ماہ میں کتاب تیار ہو جاتی ہے-“
بعض ادیبوں اور نقادوں کے مطابق سالک کی مارشل لاءکے بعد کی کتابیں نسبتاً غیر معیاری ہونے کے باوجود بہت فروخت ہوئیں ان کی تشہیر اور فروخت میں سالک کا اثرو رسوخ کام آیا- اس الزام کو کسی حد تک درست مان بھی لیا جائے تو یہ ایک عارضی دور تھا- آج ان کی وفات کے اٹھارہ برس بعد اگر ان کی کتابیں پڑھی جارہی ہیں- تو یہ ثابت کرتا ہے کہ آج سالک کا ادبی مرتبہ ان کے فن پر قائم ہے-
سالک کی جملہ ادبی حیثیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی تخلیقی شخصیت کی سب سے نمایاں حیثیت سوانح نگار کی ہے وہ ایک مورخ کی طرح حالات و واقعات کا بیان نہایت معروضی اور غیر جانبدارانہ سچائی کے ساتھ کرتے ہیں یہ خصوصیت انہیں سوانحی ادب میں ایک اہم مقام پر فائز کرتی ہے- ان کی دوسری حیثیت مزاح نگار کی ہے- اس میدان میں وہ کامیاب بھی ہیں اور مشہور بھی ادب کی تاریخ میں یہ ان کی پہچان کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن مقدار و معیار کے لحاظ سے ان کی نمایاں حیثیت سوانح نگار کی ہے- سالک کی تیسری حیثیت ناول نگار کے طور پر سامنے آتی ہے ان کا ناول ”پریشر ککر“ ناول کی تاریخ میں سالک کو قابل ذکر مقام عطا کرتا ہے- حقیقت نگاری ان کے ناولوں کی اہم خصوصیت ہے- سالک کی چوتھی حیثیت سفرنامہ نگار کی ہے- ان کے سفر نامے اس صنف کی تمام خصوصیات کا احاطہ نہیں کرتے اس لیے خود سالک انہیں ”سفر نامچے“ کہتے ہیں- ان کے سفر ناموں کی نمایاں خصوصیت وطن پرستی ہے-
بحیثیت مجموعی صدیق سالک ایک صاحب طرز ادیب ہیں- وہ ایک سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں- ان کی شخصیت کے ساتھ یہ دونوں خصوصیات ان کے ادب کا بھی اساسی حصہ ہیں- ایک ادیب ہونے کے ناطے انہوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں اپنے ارد گرد کے مسائل کی نشاندہی فنی حسن کاری کے ساتھ کی-صدیق سالک کی شخصیت اور فن پر سب سے بڑا اعتراض مارشل لا ءسے وابستگی کی صورت میں کیا جاتا ہے لیکن ان کی زندگی اور تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی زہر ہلاہل کو قند ‘ نہیں کہا مقدور بھر حاکم اعلیٰ کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھائی جس کی گواہی ان کی تحریر سے بھی ملتی ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصّب کی عینک اتار کر صدیق سالک کے فن کو سمجھا جائے جو ایک فن کار کا بنیادی حق ہے۔
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )