وہ غریب تھا، انتہائی پسماندہ، بھوک اور پریشانیوں کا مارا۔۔۔ لیکن کیا شاندار ہیرو تھا وہ !

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:155
آسٹرِنسکی نے اسے جماعت کا ڈھانچا سمجھایا۔ وہ نظام جس کے تحت یہ طبقہ خود کو تعلیم دے رہا تھا۔ہر قصبے ا ور بڑے شہر میں کچھ مقامی گروہ (locals) تھے جو چھوٹی جگہوں پر تیزی سے منظم ہو رہے تھے۔ ایک لوکل میں چھے سے لے کر ایک ہزار تک کارکن ہوتے تھے۔ کُل لوکلز کی تعداد چودہ سو کے قریب تھی جس کے اراکین کی مجموعی تعداد لگ بھگ پچیس ہزار تھی جو تنظیم کی مدد کے لیے چندہ بھی دیتے تھے۔ مقامی تنظیم کا نام ” لوکل کُک کاو¿نٹی“ تھا، اس کی اسّی لوکل شاخیں تھیں۔ یہ اکیلی ہی اس تحریک کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ وہ انگریزی، جرمن اور بوہیمئین زبانوں میں ایک ایک ہفت روزہ بھی چھاپتی تھی۔ شکاگو ہی سے ایک ماہنامہ بھی شائع ہوتا تھا۔ ایک کوآپریٹو پبلشنگ ہاؤس بھی تھا جو سال بھر میں ڈیڑھ ملین کے قریب سوشلسٹ کتابیں اور پمفلٹ چھاپتا تھا۔ یہ سب گزشتہ چند سالوں کی پیش رفت تھی۔ جب آسٹرِنسکی پہلی بار شکاگو آیا تھا تو ان چیزوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
آسٹرِنسکی پولینڈ کا تھا۔ عمر کوئی پچاس کے قریب۔ وہ سیلیزیا میں رہا کرتا تھا۔وہ اس قوم سے تھا جس سے بہت نفرت کی گئی اور جسے بہت ستایا گیا۔ اس نے ستّر کی دہائی میں پرولتاری تحریک میں حصہ لیا تھا جب بِسمارک نے فرانس فتح کرنے کے بعد اپنی خون خرابے والی پالیسی کا رخ ” انٹر نیشنل“(سوشلسٹ مخالف قانون)کی طرف کیا تھا۔ آسٹرِنسکی خود دوبار جیل جا چکا تھا، لیکن ان دنوں وہ جوان تھا اور ان چیزوں کی پروا نہیں کرتا تھا۔ جب سوشل ازم ساری رکاوٹیں توڑ کر ایک بڑی سیاسی طاقت بنا وہ امریکا آگیا اور نئے سرے سے جدوجہد شروع کردی۔ امریکا میں ہر آدمی نے سوشل ازم کے تصور کا خوب مذاق اڑایاتھا۔۔۔ امریکا میں سب آزاد تھے۔یہاں سیاسی آزادی نے اجرتی غلامی کو گوارا بنا دیا تھا۔
وہ دبلا سا درزی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے پاو¿ں خالی چولھے پر رکھ لیے۔ وہ سرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا تاکہ ساتھ کے کمرے میں لیٹے لوگ تنگ نہ ہوں۔ یورگس کو وہ کسی بھی طرح تقریر والے آدمی سے کم حیران کن نہیں لگ رہا تھا۔ وہ غریب تھا، انتہائی پس ماندہ، بھوک اور پریشانیوں کا مارا۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ کتنا جانتا تھا، کتنی جرأت تھی اس میں اور کیا کچھ اس نے حاصل کیا تھا، کیا شاندار ہیرو تھا وہ ! اس جیسے اور بھی تھے۔۔۔ اس جیسے ہزاروں، اور سب کے سب محنت کش! یہ سب حیران کن نظام اس کے ساتھیوں نے وضع کیا تھا!۔۔۔ یورگس کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔
یورگس نے بتایا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، جب کوئی شخص پہلے پہل سوشل ازم کی طرف آتا ہے تو وہ دیوانہ سا ہوتا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ یہ حقیقت دوسرے کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں، وہ توقع کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی ہفتے میں ساری دنیا کو سوشل ازم کا قائل کر لے گا۔ پھر کچھ عرصے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ تب لگتا ہے کہ اگر اِکّا دُکالوگ ہی اس طرف آتے رہیں تو بہت ہے۔ ابھی یورگس کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے بہت مواقع تھے کیوں کہ صدارتی مہم چل رہی تھی اور ہر آدمی سیاست میں دلچسپی لے رہا تھا۔ آسٹرِنسکی اسے اپنے ساتھ برانچ لوکل کے اگلے جلسے میں لے جائے گا۔ اس کا تعارف دوسرے لوگوں سے کروائے گااور ہو سکتا ہے وہاں وہ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لے۔ پارٹی کا چندہ ہفتے کے پانچ سینٹ تھا لیکن اگر کوئی ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے معافی بھی مل سکتی تھی۔سوشلسٹ پارٹی ایک حقیقی سیاسی تنظیم تھی جس میں کوئی باس نہیںتھا اور اس کو سارے ارکان مل کر چلاتے تھے۔آسٹرِنسکی نے ان باتوں کے علاوہ اسے جماعت کے اصول بھی بتائے۔ تم کَہہ سکتے ہو کہ دراصل صرف ایک ہی سوشلسٹ اصول ہے۔۔۔ ” کوئی مصالحت نہیں۔“ یہ دنیا بھر میں پرولتاری تحریک کی روح ہے۔ جب ایک سوشلسٹ انتخاب جیت جاتا ہے تو وہ صرف اس قانون سازی کی حمایت کرتا ہے جس کا فائدہ محنت کش طبقے کو پہنچے، وہ حقیقی مقصد یعنی انقلاب کے لیے محنت کش طبقے کی تنظیم سازی کے سامنے دیگر رعایتوں کو غیر اہم سمجھتا ہے۔ امریکا میں جو اصول کار فرما تھا وہ یہ تھا کہ دوسال میں ایک سوشلسٹ کسی اور کو سوشلسٹ بنائے گا۔ اگر وہ اس تناسب سے چلتے رہے تو 1912 میں یہ ملک ان کا ہوگا۔۔۔ اگرچہ ان میں سے اکثر کو اتنی جلدی اس انقلاب کی توقع نہیں تھی۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔