ہم اپنے تمدّن اور تاریخ کا بڑا خزانہ وقت کی دھول میں گم کر آئے ہیں اور کسی نے کبھی اسے صاف کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:8
جب بات سے بات نکلتی ہے تو تحریر کوئی دوسرا ہی رخ اختیار کر لیتی ہے ۔میں ابھی گھر پہنچا بھی نہیں اور میں نے پرانے کراچی کے قصے چھیڑ دئیے ۔ ویسے تو یہ کتاب اسی مقصد کے لیے تحریر کی جا رہی ہے ، اس لیے بے تابی ہے کہ جلد سے جلد ان خوبصورت دنوں کی کہانیاں آپ تک پہنچاﺅں ۔مگر ایسا لگتا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی تیز جا رہا ہوں ، شاید اس کے پیچھے ایک ہلکا سا خوف یہ بھی ہے کہ آگے چل کر میں اپنی بڑھتی بلکہ بڑھی ہوئی عمر کے تقاضوں اور کمزور یاد داشت کے باعث کہیں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھول ہی نہ جاؤں۔ اس لیے جہاں کہیں بھی کچھ یاد آئے گا، لکھ دوں گا ۔ایسا آگے چل کر بھی ہوتا رہے گا ۔ اسی چکر میں ، میں کچھ دیر کو پٹری سے اتروں گا اور آپ کو پرانے وقتوں کے ایک دو قصے سنا کر پھر کہانی کی طرف لوٹ آیا کروں گا ، آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ مگر ٹھہرئیے! کیا میں نے ”کہانی“ کہا؟ یہاں کون سی الف لیلہ کی کہانیاں ہےں ۔یہ تو اس خوبصورت وقت کی باتیں ہیں جو ، اب ہم سے روٹھ کر کہیں کھو گیا ،اور یہ داستانیں ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر کہیں پاتال میں جا گری ہیں۔ میں انہیں وقتاً فوقتاً بیان کرکے اپنے ہم عمر ساتھیوں کی آنکھیں نم کرتا رہوں گا اور نئی نسل کو یہ احساس بھی دلاتا رہوں گا کہ ہم اپنے تمدّن اور تاریخ کا کتنا بڑا خزانہ وقت کی دھول میں گم کر آئے ہیں اور کسی نے کبھی اسے صاف کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔آسان لفظوں میں آپ کو مذاق ہی مذاق میں کراچی کے سنہری دور کی تاریخ اورجغرافیہ پڑھاﺅں گا جس کو فراموش کرکے ہم آج کیا سے کیا ہو گئے ہیں ۔
فی الحال اپنے پہلے دن ہی کو لے کر آگے چلتے ہیں ۔ابھی ڈرگ روڈ پر کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ایک بار پھرہماری بگھی بائیں طرف کو مڑی اور ہمیں ابا جان کی یونٹ کے ساتھ ہی بنے ہوئے دو کمروں کے ایک کوارٹر کے سامنے اتار دیا ۔ دماغ میں ابھی تک ریل گاڑیوں کی گھڑگھڑاہٹ گونج رہی تھی۔ تین دن کے لگاتار سفر کی تھکاوٹ بھی تھی، اس لیے ناشتہ کرکے ہم سو گئے ۔یہ ہمارا کراچی میں پہلا دن تھا ۔
مہاجر کیمپ
شام کو ڈرتے ڈرتے گھر سے قدم باہر نکالا تو دائیں طرف تو وہ ہی ڈرگ روڈ تھا جہاں سے ہم اندر کی طرف مڑے تھے اور بائیں طرف میرے ابا جان کی یونٹ کا گیٹ تھا۔گھر کے سامنے البتہ خالی میدان تھا تاہم اس کے بعدایک بہت ہی وسیع و عریض رقبے پر ایک اور ہی جہاں آباد تھا ، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں جھگیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ ان بے گھر لوگوں کی تھیں جو ہجرت کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر یہاں پہنچے تھے۔ ان میں سے کچھ تو اپنے عزیز وں اور رشتے داروں کے ساتھ مقیم ہو گئے تھے اور جن کا اس بھری دنیا میں کوئی نہ تھا وہ یہاں آکر اپناگھر بنا کربیٹھ گئے تھے۔ گھر کیا تھا، بس تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چار چھ بانس کھڑے کرکے ان کے ارد گرد کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی چٹائیاں لپیٹ کر رسی سے باندھ دی جاتی تھی ، ایک دو مضبوط بانس چھت پر رکھ کر ان پر ٹین کی چادریں ڈال کراوپر بھاری بھر کم پتھر رکھ دیئے جاتے تاکہ تیز ہوا سے چھت اڑ نہ جائے ۔ اندر سے اپنے اس”رہائشی کمرے“ کو صاف کیا جاتا اور اس کے ایک کونے میں اپنا برائے نام سامان ایک ترتیب سے رکھ کر لوگ باگ اس کو اپنا ”گھر “ کہنا شروع کردیتے تھے ۔ وسط میں ایک دو مٹی کے چبوترے بنا کر ان پر دری اور چادر بچھا دی جاتی، اوریہ ان کا بستر ہوتا تھا ۔ ایک کونے میں لوہے کا انگیٹھی نما چولہا ہوتا تھا جس میں لکڑیاں ، کوئلہ یا برادہ جلایا جاتا تھا ۔ساتھ ہی دو چار ضروری برتن جو زیادہ تر سلور کے ہی ہوتے تھے ، چینی مٹی کے چائے پینے کے بڑے پیالے وغیرہ ۔ بس یہی ان کا کل سرمایہ ہوتا تھا،جو ایک دو چھوٹے صندوقوں میں آ جاتا تھا۔ وہیں کہیں کونے میں ایک رسی باندھ کر عام استعمال کے کپڑے لٹکا دیئے جاتے تھے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )