اسرائیل کی مذمت

سعودی عرب کے ایک وزیر نے اسرائیل کی غزہ میں مسلمانوں پر بمباری اور وحشیانہ دہشتگردی کی ایک بار پھر مذمت کی ہے اور اس بار صرف مذمت ہی نہیں کی بلکہ اپنے بیان میں انہوں نے دنیا کو یاد دلایا ہے کہ وہ اس سلسلے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ باقی تمام اسلامی ممالک اور ان کے ”لیڈران“ اپنا اور اپنے طریقے سے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں لیکن اسرائیل ہماری بار بار دہر ائی ہوئی مذ مت کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا اور ایک کان سے بھی نہیں سنتا کہ اسے دوسرے کان سے نکال سکے اور یوں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا۔وہ مسلمانوں پر اپنا ظلم اور زیادتیاں نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اضافہ کر رہاہے،چنانچہ عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے اور ہما رے مذمتی بیانات کے مطابق اسرائیل کو اپنی کاروائیاں روکنے اور امن قائم کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی ضمیر کو اب جاگ جانے کا بہت مناسب موقع ہے اور وقت کا تقاضا بھی ہے اور دنیا کو اس وحشت اور درندگی پر آنکھیں بھی اب کھول دینا ضروری ہے۔ہمارے وزیر اعظم نے بھی چند دن پہلے ساری دنیا کے ضمیر کو آواز دی تھی کہ اب معاملہ کو حل کرنے کا وقت ہو چکا۔کئی ماہ سے مسلمانوں کا قتل عام دنیا بند کانوں سے چپکے چپکے خاموشی سے سن بھی رہی تھی اور بند آنکھوں سے دیکھ بھی رہی ہے،مگر دو ارب سے زیادہ مسلمان ممالک کچھ ضروری اپنے اندرونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور کچھ مصروف بھی، لیکن ان مجبوریوں کے باوجود تقریباً تمام مسلم ممالک کے حکمران اسرائیل کی دہشتگردی پر روزانہ کسی نہ کسی حوالے سے تنقید بھی کرتے رہے اور مذمت بھی کرتے رہتے ہیں۔
سچ پوچھو تو اسرائیل کو اب یقین ہو چلا ہے کہ اب گریٹر اسرائیل بنانے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ اس کا نقشہ بھی جاری کر چکا۔اب اسرائیل کے اس عمل پر مذمت تو ایک بار پھر بنتی تھی اسی لیے دنیا کو کہا گیا کہ وہ اپنی ذمہ دا ری کو اب محسوس کرے جیسے ہم تمام مسلمان ممالک کئی عرصے سے مستقل محسوس کر رہے ہیں،ہما ری مذمتی تحریک سے اسرائیل کو پتہ چل چکا ہے کہ ابھی ہم اس طرح برباد نہیں ہوئے جیسے وہ چاہتا ہے،ہم اس کی مذمت کرنا کبھی بھی بھول نہیں سکتے اور یہ کام ہم کرتے رہیں گے وہ ان مذمتی بیانات کو ہماری کمزوری نہ سمجھے۔ بس ذراہم اپنی اپنی حکومتوں کو مضبوط کر لیں تو پھر ”آنکھوں“ میں آنکھیں ڈال کر اسرائیل سے بات بھی کر لیں گے صرف اسی لیے یہ سارا کام ہم نے باقی دنیا پر چھوڑ رکھا ہے۔ہمیں تو پورا یقین ہے اگر اب بھی اسرائیل اپنے ”مکروہ عزائم“ سے باز نہ آیا تو تمام اسلامی برادر ممالک بہت جلد ”او آئی سی“ کا اجلاس طلب کرنے کی کوششیں تیز کر دیں گے اور اس بار صرف مذمت نہیں بلکہ شدید مذ مت کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کام سے باز رہنے کا حکم بھی جاری کر سکتے ہیں پھر وہ دنیا کو کیا منہ دکھائے گا۔باقی ساری دنیا کی طرح ہما را ملک بھی کئی بار شدید مذ مت کر چکا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ہماری تمام مساجد میں ہرنماز کے بعد اور عام طور پر اور جمعہ کو خاص طور ہم سب کافروں کی بربادی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کا منہ کالا کرنے کی فرمائش بھی مستقل جاری رکھتے ہیں،مگر افسوس نہ تو وہ برباد ہو رہا ہے اور نہ ہی ان کا منہ ابھی تک کالا ہوسکا۔دراصل ہم نے اپنے تمام کام قدرت پر چھوڑ رکھے ہیں،اپنے حصّے کا کام بھی دعا کے ذریعے ہونے کا یقین بھی کر چکے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں گرتا لہذا جو ہورہا ہے وہ اور جو ہو گا وہ بھی اس کی رضا سے ہی ہوگا۔اس لئے ہم ایمان کی آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے فخر سے کہہ سکتے جو کرے گا وہی کرے گا اور ہم اس کی رضا میں خوش بھی ہیں اور راضی بھی۔ رہا اسرائیل کا معاملہ تو اس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں جس طرح امریکہ میں پچھلے کئی دنوں سے آگ لگی ہوئی ہے اسرائیل میں میں بہت جلد آگ لگنے والی ہے۔آگ کے ذریعے قدرت نے اپنا انتقام لے لیا بالکل اسی طرح اسرائیل،فلسطین اور کشمیر کے بارے میں بھی قدرت ضرور کوئی نہ کوئی کارروائی کرنے کا سوچ رہی ہو گی۔ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ویسے بھی رمضان المبارک آ رہا ہے اس میں دعاؤں میں کچھ اضافہ سے بھی قدرت ہمیں کبھی مایوس نہیں کرے گی۔
٭٭٭