گجرات کے لوگوں کی قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا مسئلہ

یوں تو پاکستان کے سارے ہی انتخابات متنازعہ رہے ہیں اور ہارنے والی جماعتوں نے کبھی بھی نتائج کو قبول نہیں کیا،1970ء میں پہلے بالغ رائے دہی کے اصول پر ہونے والے عام انتخابات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ تھے ان انتخابات کے منصفانہ ہونے کے لئے یہ ثبوت بھی کافی ہے کہ ان کے نتائج فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف سامنے آئے تھے، لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ان انتخابات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے فوجی صدر یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں بلاوجہ تاخیر کی اور مغربی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی ہٹ دھرمی سے کام لیا، جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا اور پاک فوج کو بھارت کے خلاف جنگ میں ہتھیار پھینک کر ہزیمت اٹھانا پڑی۔
اس کے بعد وقفے وقفے سے ہونے والے انتخابات متنازعہ رہے اور بیچ میں دو بار مارشل لاء بھی لگایا گیا، ماضی قریب میں ہونے والے 2018ء کے عام انتخابات پر بھی کئی سوالات سامنے آئے اور اپوزیشن جماعتوں کے بقول عمران خان منتخب نہیں سلیکٹڈ وزیراعظم تھے، کیونکہ انتخابات سے ایک سال قبل وزیراعظم میاں نواز شریف کو کرپشن کیسز میں سزا سنا کر وزارتِ عظمیٰ اور ن لیگ کی قیادت سے الگ کر دیا گیا اور عام انتخابات کے موقع پر میاں نواز شریف صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم کو جیل میں بند کر کے ججز سے کہا گیا کہ انتخابات تک ان کو ہر صورت جیل میں ہی رکھا جائے پھر ن لیگ اور دوسری جماعتوں کے الیکٹیبلز کو دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا اور انتخاب کی شام سسٹم کے بیٹھ جانے کا بہانہ لگا کر نتائج میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے جس سے نہ صرف مخالف سیاسی جماعتوں نے،بلکہ کئی مبصرین نے بھی 2018ء کے انتخابات کو مشکوک قرار دیا تھا، لیکن فروری 2024ء کے انتخابات نے پچھلے سارے انتخابات کو مات کر دیا اور صرف دھاندلی نہیں کی گئی،بلکہ بہت سارے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی براہ راست تعیناتی کر دی گئی، اِس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ جسے ہرانا مقصود ہوتا تھا ان پر مقدمات قائم کیے جاتے، انہیں جیلوں میں بند کر کے انتخابات کروائے جاتے، ان کے الیکٹیبلز کو توڑ لیا جاتا، عوام میں ان کے خلاف فضا بنائی جاتی اور انتخابات کے دن کئی طریقوں سے دھاندلی کروائی جاتی تھی یہ تمام حربے 2024ء کے انتخابات میں بھی آزمائے گئے، پی ٹی آئی کی ساری قیادت کو تتر بتر کیا گیا، زیادہ تر کو جیلوں میں بند کیا گیا، کاغذات نامزدگی داخل کروانے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، کئی امیدواروں کو ڈرا دھمکا کر انتخابات سے دستبردار کروایا گیا، پی ٹی آئی سے جماعتی انتخابی نشان چھین کر ان کے امیدواروں کو عجیب قسم کے نشانات پر آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینا پڑا، لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تحریک انصاف کو ووٹ پڑ گیا اور ابتدائی نتائج سے واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے تو پھر نتائج کا سلسلہ روک دیا گیا اور اس کے بعد ریٹرنگ افسران کے دفاتر کے دروازے بند کر کے مرضی کے نتائج مرتب کر کے فارم 47 پر درج کر کے نتائج کا اعلان کیا گیا، یہ شکایات پورے پاکستان میں سامنے آئیں لیکن ایک ضلع ایسا بھی ہے جس میں ایک کے سوائے تمام نتائج کو اس طرح بدلا گیا کہ تیسرے نمبر پر ہارے ہوئے امیدواروں کی 47 کے نوٹیفکیشن پر تعیناتی کر دی گئی یہ ضلع گجرات ہے جو اب ڈویژن بھی بن چکا ہے، چونکہ راقم کا تعلق گجرات سے ملحقہ آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر سے ہے اس لئے ہم گجرات کے انتخابات کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہوتے ہیں،بلکہ بھمبر اور گجرات کے لوگ ایک دوسرے کے ضلع میں انتخابات پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں، کیونکہ ان دونوں اضلاع کے لوگوں کی آپس میں تعلق اور رشتہ داریاں ہیں۔ کراچی، لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد سمیت دوسرے کئی شہروں میں بھی 30 سے 60 ہزار کی سبقت سے جیتنے والوں کو ہروانے کی شکایات سامنے آئی ہیں، لیکن گجرات میں ایک کے سوا تمام قومی اور صوبائی حلقوں میں نتائج تبدیل کر دئیے گئے اور جس ایک سیٹ پر نتیجہ تبدیل نہیں کیا وہاں بھی ایک ہفتہ تک نتیجہ روک کر پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے امیدوار چوہدری الیاس کو قائل کیا جاتا رہا کہ مسلم لیگ(ق) میں شامل ہو کر اپنی جیت کا نتیجہ لے لو اگر ایسا نہیں کرو گے تو ہار جاو گے پھر چوہدری الیاس نے یہ شرط قبول کر لی اور ایم این بن گئے بعد میں انہوں نے کئی بار پریس کانفرنسیں کر کے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے ووٹروں کو یقین بھی دلایا کہ میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں، مگر قومی اسمبلی کی فہرست میں ان کا نام ق لیگ میں ہی شامل ہے اور اب وہ حکومتی پروٹوکول بھی لے رہے ہیں۔ گجرات کے ایک حلقے میں ن لیگ کے سابق ایم این اے جعفر اقبال جو بہت مضبوط امیدوار تھے کو چھوڑ کر ن لیگ کا ٹکٹ نصیر عباس سدھو کو دلوایا گیا جن کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ اور پی ٹی آئی کے فیض الحسن شاہ تھے پولنگ اسٹیشنز پر موجود ایجنٹوں کے بقول پی ٹی آئی کے امیدوار کو ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد ووٹ ملے، کائرہ صاحب کو 51 ہزار اور ن لیگ کے سدھو صاحب کو 36 ہزار ووٹ ملے تھے، لیکن فارم 47 کے مطابق سدھو صاحب کامیاب قرار پائے،اِسی طرح قومی اسمبلی میں چوہدری سالک، چوہدری حسین الٰہی ق لیگ کی ٹکٹوں پر کامیاب قرار دئیے گئے،جبکہ ان حلقوں کے دوسری تمام جماعتوں کے امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے بقول ق لیگ کے امیدواروں میں کوئی دوسرے نمبر پر بھی نہیں تھا خود ن لیگ کے امیدوار دہائی دیتے رہے کہ ہم تو ہارے ہیں، لیکن ق لیگ سے کہیں زیادہ ووٹ ہمارے تھے گجرات سے زیادہ تر ق لیگ کے امیدواروں کو کامیاب کروایا گیا ہے،لیکن تمام حلقوں کے ووٹرز تو جانتے ہیں کہ ہم نے ق لیگ کو ووٹ نہیں دیا اور اب ق لیگ کے جیتے ہوئے ایم این اے جن میں کچھ وفاق اور صوبے میں وزیر بھی ہیں کا اپنے حلقوں کے عوام سے رابطہ بھی نہیں ہے جس سے گجرات کے عوام محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے پہلے یہ ہوتا تھا کہ دھاندلی سے جیتے ہوئے نمائندے عوام سے رابطے میں رہتے تھے کہ آئندہ جیت سکیں، لیکن اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اب انتخابات کی ضرورت نہیں،بلکہ امیدواروں کی تعیناتی بذریعہ نوٹیفکیشن 47 ہوا کرے گی۔