تیار پٹری، جو گاڑی کو ایک مقام سے دوسرے تک پہنچاتی ہے، ریلوے لائن کہلاتی ہے، پاکستان میں یہ دونوں ہی نام استعمال ہو جاتے ہیں

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:29
ریلوے لائن اسٹیشن سے میرے دل تک آتی ہے
ریل کی پٹری اور لائن تکنیکی طور پر تو ایک ہی چیز کے 2 نام ہیں، یعنی فولاد کی بنی ہوئی پٹری جس پر ریل گاڑی چلتی ہے۔ لیکن ان کے لیے الفاظ کا چناؤ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ ریل کو دوڑانے کے لیے زمین پر سلیپروں اور گارڈروں سے جو بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا جاتا ہے اس کو پٹری یا ٹریک کہتے ہیں جب کہ تیار پٹری، جو گاڑی کو ایک مقام سے دوسرے تک پہنچاتی ہے، وہ ریلوے لائن کہلاتی ہے۔ پاکستان کی عام فہم زبان میں یہ دونوں ہی نام استعمال ہو جاتے ہیں۔ان ریلوے لائنوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کو الگ الگ نام دے دئیے گئے ہیں۔ان میں چند مشہورلائنیں یہ ہیں:
سنگل لائن
عام طور پر گاڑی کے لیے سنگل یعنی پٹریوں کا ایک جوڑا ہوتا ہے تاہم یہ اس وقت تک ہی کارآمد ہے جب تک کہ اس لائن پر گاڑیوں کی آمد و رفت کچھ زیادہ نہ ہو۔ ایسے حالات میں گاڑی اپنی مخصوص رفتار اور اپنے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق اپنی سمت کو چلتی رہتی ہے۔ لیکن جب مخالف سمت سے بھی گاڑی آ رہی ہو تو ان میں سے کسی ایک کو اگلے اسٹیشن پر بنی ہوئی کسی اضافی پٹری یا لوپ لائن (Loop Line)پر روک کر دوسری گاڑی کے گزرنے کا انتظار کروایا جاتا ہے، اور جب آنے والی گاڑی اسٹیشن سے با حفاظت گزر جاتی ہے تو منتظر اور ٹھہری ہوئی گاڑی کو اپنی منزل مقصود کی طرف جانے کا اشارہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ اصول ایسے حالات میں بھی لاگو ہوتا ہے جب پیچھے سے کوئی تیز رفتار ایکسپریس گاڑی آ رہی ہو اور اس کو بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بھیجنا مقصود ہو، تو عام پسنجر گاڑی کو کسی اسٹیشن کی اضافی لائن پر کھڑا کرکے مرکزی لائن کو خالی کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو کراس کروانا کہتے ہیں۔ یہ لفظ اتنا زبان زدِ عام ہے کہ جب گاڑی کسی غیر منظور شدہ اسٹیشن پر رکتی ہے تو مسافر شور مچا دیتے ہیں کہ کراسنگ آگئی ہے۔ منچلے مسافریہ نظارہ دیکھنے کی خاطر اْتر آتے ہیں اور سگریٹ بیڑی وغیرہ بھی سلگالیتے ہیں۔
ڈبل لائن
جب کسی مرکزی یا مصروف لائن پر گاڑیوں کی آمد و رفت بہت بڑھ جائے تو پھربار بار گاڑیوں کو روک کر ایک دوسرے کو کراس نہیں کروایا جا سکتا۔ ایسی صورت میں مرکزی لائن کے متوازی ایک اور اضافی پٹری بچھائی جاتی ہے۔جن میں سے ایک لائن جانے والی گاڑیوں اور دوسری لائن آنے والی گاڑیوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔
پاکستان میں عمومی طور پر آنے جانے والی گاڑیاں اپنی بائیں طرف والی پٹری پر چلتی ہیں۔ وطن عزیز میں کراچی سے اندرون ملک جانے والی لائن کو اپ اور واپس آنے والی کو ڈاؤن کہتے ہیں۔ لیکن یہ اصول ہر جگہ لاگو نہیں ہوتا۔ عموماً ہوم اسٹیشن سے باہر جانے والی گاڑی کو اپ اور واپس آنے والی کو ڈاؤن کہتے ہیں۔ یہ ریلوے کی صوابدید پر ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔