شروع سے ہی ریزرو تھا، بہنوں کی شادیوں پر دوسرے بھائیوں کی طرح میں بہت رویا، نہیں معلوم یہ آنسو خوشی سے تھے یا بہنوں کی جدائی کے

 شروع سے ہی ریزرو تھا، بہنوں کی شادیوں پر دوسرے بھائیوں کی طرح میں بہت رویا، ...
 شروع سے ہی ریزرو تھا، بہنوں کی شادیوں پر دوسرے بھائیوں کی طرح میں بہت رویا، نہیں معلوم یہ آنسو خوشی سے تھے یا بہنوں کی جدائی کے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:70
 ہم3بھائیوں کی 2 بہنیں ہیں۔ میرے سوا باقی بہن بھائیوں کی آپس میں بہت بے تکلفی اور دوستی تھی۔ آ ج بھی ان کا پیار و محبت ویسا ہی ہے۔میں شروع سے ہی کچھ ریزرو قسم کا بندہ تھا۔اپنی بہنوں کی شادیوں پر دوسرے بھائیوں کی طرح میں بہت رویا تھا۔ مجھے نہیں معلوم یہ آنسو خوشی سے تھے یا بہنوں کی جدائی کے۔ سیانا ہوا تو سمجھ آیا یہ بہنوں کی جدائی کے آنسو تھے کہ عمر کے بیس بائیس سال ہمارے ساتھ گزار کر وہ پیا گھر سدھاری تھیں۔ اب ان کی ترجیع ان کے گھر، خاوند اور بچے ہیں۔دعا ہے خوش رہیں، آباد رہیں، ٹھندی چھاؤں میں رہیں۔ بڑی عمر میں ہی ان دعاؤں کے معنی سمجھ آ ئے تھے۔ ما شا اللہ اپنے اپنے گھروں میں وہ خوش ہیں اور ان کی اولادیں ان کی تابعدار ہیں۔
 پہلی فلم۔۔ گلستان سینما؛
میں نے پہلی فلم ا پنی چھوٹی بہن فرح کے ساتھ سینما میں ”where eagles dare دیکھی تھی۔ اس کے چند سال بعد اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ سنیما میں ندیم اور شبنم کی ”دلنشین“ دیکھی تھی۔ ایک فلم میں اس وقت کے لائل ور میں میجر نادر رویز کے سنیما میں ”پگڑی سنبھال جٹا“ دیکھی تھی۔ امی کی ممانی ممتاز اور ماموں زاد بہن ”باجی ثمینہ“ بھی ہمراہ تھیں۔ گھریلو کاموں میں میری والدہ کا ہاتھ نو کر زیادہ اور بہنیں کم بٹاتی تھیں۔ گھر کی مہمان داری کی ذمہ داری امی جی کی ہوتی تھی۔ وہ شاندار اور اعلیٰ میزبان تھیں۔ کھلا دستر خوان اور بڑا دل۔ اس دور میں قرآن کریم ”رحل“ میں رکھے جاتے اور اسی پر رکھ کر پڑھے جاتے تھے۔ مولوی صاحب قرآن پاک کے ساتھ ساتھ سارے کلمے، نماز اور چھوٹی چھوٹی صورتیں بھی یاد کراتے تھے۔  
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان؛ 
72/ 73 میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو خرم اور میں 5 روپے کا سیزن ٹکٹ خرید کر پہلی بار ٹیسٹ میچ دیکھنے نیشنل(ابھی اس کا نام قدافی سٹیڈیم نہیں رکھا گیا تھا۔ وہ تو 74 میں ہونے والی اسلامی سبراہی کانفرنس کے بعد بھٹو صاحب نے یہاں ایک جلسے میں خطاب کے دوران نام لیبیا کے مرحوم لیڈر کرنل معمر قدافی کے نام پر رکھا تھا۔) سٹیڈیم گئے تھے۔ انگلستان کے کپتان”ٹونی لوئس“ تھے جبکہ پاکستانی ٹیم کی قیادت ”ماجد خاں“ کر رہے تھے۔ میری والدہ نے لنچ کے لئے ہمیں پراٹھے، آملیٹ انڈے اور شامی کباب بنا کر دئیے تھے۔ لنچ کے وقت ان ٹھنڈے پراٹھوں اور املیٹ کا مزا زبان کو ایسا لگا کہ یہ ناشتہ عمر بھر کے لئے میرے ہر سفر کا لازمی حصہ رہا۔ 
کرکٹ سے ایسی محبت ہوئی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ٹیسٹ میچ ہو رہا ہوتا ریڈیو کمنٹری سننے کا شوق راتوں کو جگائے رکھتا تھا۔ اس زمانے میں بڑے بڑے کمال کرکٹ کو منٹیٹر تھے۔پاکستان کے عمر قریشی، جمشید مارکر، آسٹریلوی ”ایلن میگیلورے“ بل لاری،جم میکسول، ڈینس کمیٹی، انگلینڈ کے جان آرلٹ اور انڈیا کے ہندی کے روی لال“وغیرہ۔ میں اور شعیب ان کی انگریزی کومنٹری کی خوب نقل کرتے تھے جبکہ میں روی لال کی ہندی کومنٹری بھی عمدگی سے کرتا بلکہ اچھی خاصی ہندی بولنے لگا تھا۔ٹی وی پروگرام کسوٹی بھی پسندیدہ تھا جو میں ہمیشہ ابا جی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا۔ اس پروگرام کے میزبانوں کی جنرل نو لج بلا کی تھی۔ اس پروگرام کے میزبان ”قریش پور“، عبد اللہ بیگ اور افتخار عارف کمال شخصیات تھے۔ہم دوست بھی آپس میں یہ کھیل کھیلتے۔ پوچھی جانے والی شخصیات میں زیادہ کا تعلق کرکٹ کی دنیا سے ہوتا۔ میں اور شعیب 100 فی صد درستگی سے پو چھی جانے والی شخصیات کا اندازہ لگاتے اور یوں ہمیں بھی دوستوں میں عبید بیگ اور افتخار عارف ہی سمجھا جا تا تھا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -