جس طرح سرد جنگ کے دور میں جنوبی ایشیا کو عالمی سطح پر بے حد اہمیت حاصل تھی ، اسی طرح آج کے تشویش ناک حالات میں بھی یہ خطہ عالمی امن اور سیکیورٹی کے لئے اہم ہے۔اُس وقت سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ روکنے کے لئے بنائے گئے حتمی منصوبے کو پاکستان اور افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں والے علاقوں میں عملی شکل میں ڈھالا گیااور ان دونوں ممالک نے سوویت یونین، جس کو دنیا ”شیطانی طاقت “ کے نام سے یادکرتی تھی، کے انہدام میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ آج ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ کا میدان بھی ہے اور یہی دونوں ممالک صف ِ اوّل میں ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے بعد اس بدقسمت ملک میں پھیل جانے والی افراتفری اور فساد موجودہ افغان بحران کی اصل وجہ ہے۔ گیارہ ستمبر کا سانحہ افغانستان بحران کے اس افسوس ناک باب میں، جو ابھی تک بند نہیںہو سکا، مَیں شامل شدہ آخری اضافی نوٹ کی طرح ہے۔ واقعات کا معروضی انداز میں جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ دیدہ دانستہ طور پر اس مسئلے کے حل کے کئی آسان یا مشکل مواقع گنوا دئیے گئے۔ اگر سوویت یونین کے انخلا کے بعد قدیم طرززندگی کے حامل اس ملک کو غیر ملکی طاقتیں تنہا چھوڑنے کی بجائے آہستہ آہستہ عالمی پیمانوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل بناتیں تو آج شاید حالات مختلف ہوتے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم نے افغانستان کی انتشار پسند کثیر النسلی سیاسی قوتوں کو ایک وسیع سیاسی منظر نامے میں ہم آہنگ کرنے کے لئے اُن کی معاونت اور حوصلہ افزائی کی۔1991ء میں افغانستان کے متحارب دھڑوںکے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے طے پانے والا اسلام آباد معاہدہ اُس پُر آشوب دور میں افغان امن کے لئے کی جانے والی ہماری مخلصانہ کوششوں کی دلالت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے افغان جنگجو اُس معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو بھی ہم نے افغان کشیدگی کے حل کے لئے مختلف قوتوںکے درمیان مذاکرات ممکن بنانے کے کوشش کی۔
آج افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کا کوئی اپنا ایجنڈہ ہو، لیکن پاکستان اور افغانستان نے اس مسئلے پر اتنی اذیت برداشت کی ہے کہ وہ مزید کسی تباہ کن تجربے کے متحمل نہیںہو سکتے ۔ اگر دنیا کو محفوظ اور پُر امن بنانے کی کنجی اس خطے میں ہے تو اس کو تاراج کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیںہو گا، بلکہ یہاں سیاسی، معاشی اور پُرامن سماجی سرگرمیوں کی مرحلہ وار ترویج ضروری ہے، تاہم جاری کشمکش اور تناﺅ کی وجہ سے قیام ِ امن کا عمل متاثر ہو گااور مطلوبہ نتائج برآمد نہیںہوںگے۔ ا گرچہ ا فغانستان کی صورت حال سے صرف افغانوں کو ہی متاثر ہونا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین کی بلاروک ٹوک پاکستان آمد، دہشت گردی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے دوسال پہلے کانگرس کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُن میں سے زیادہ تر کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے، کیونکہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے افغان بحران نے پاکستان کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے سیکیورٹی کے بے شمار مسائل پیدا کئے ہیں۔
کئی عشروں تک پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا ہے۔ ان کی وجہ سے یہاں منشیات اور اسلحے کی فراوانی ( جسے عام طور پر کلاشنکوف کلچر کہا جاتا ہے)نے اس کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اسی طرح موجودہ افغان جنگ میں بھی پاکستان صف ِ اوّل کا ملک ہے ، اس لئے یہ تشدد ، دہشت گردی، لاقانونیت اور معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، لہٰذا سرمایہ کاراس طرف آنے سے خائف ہیں۔ کچھ عرصے سے امریکہ بھی پاکستان کی سرزمین، قبائلی علاقوں، پر ڈرون حملوں کے علاوہ فوجی کارروائیاں بھی کر رہا ہے ۔ ان سے پاکستانیوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، کیونکہ پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملے اُن کی قومی خود مختاری کی پامالی کے مترداف ہیں۔ علاقائی پیچیدگیوں ، جیسا کہ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے روابط، انڈیا کا خطے میں فوجی غلبے کا خبط اور اس کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ، جو ہماری سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، کی وجہ سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر اس خطے کی تشویش ناک تاریخ سے کوئی سبق لیا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ واشنگٹن کو اس کے سٹریٹجک توازن کو خراب کرنے کی بجائے اس کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ امتیازی بنیادوں پر جو ایٹمی تعاون کیا ہے، اُس کی دنیا میں کوئی مثال نہیںہے۔ اس سے واشنگٹن کی ترجیحات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں سیاسی اور معاشی فوائد کے لئے اپنی توجہ جنوبی ایشیا، جہاں چین بھی وسطی ایشیا پر نظر رکھتا ہے، پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔2005 ءمیں اس نے انڈیا کے ساتھ کئی بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ کرتے ہوئے اپنی فوجی اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچایا۔بھارت اور امریکہ کے اس سٹریٹجک تعاون کے پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے مضمرات یقینا کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ انڈیا ، جو کبھی غیر جانبدار تحریک کا بانی تھا، آج امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ بہت سے معاہدوں کا شریک بن چکا ہے۔ یہ امریکہ کے ایشیا میں قدم مضبوط کرنے کے لئے ہر ممکن معاونت فراہم کر رہا ہے۔ اگر اس خطے کے کھولتے ہوئے حالات کا معروضی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہاں امن وامان اور سیکیورٹی کے مسائل کا تعلق پاک بھارت کشیدگی سے ہے اور اس کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ ¿ کشمیر ہے۔آج افغانستان میں قیام ِ امن ، جس کی امریکہ کو شدید ضرورت ہے، کے لئے پاک بھارت تعلق میں بہتری ناگزیر ہے۔ صدر اوباما کے ابتدائی دور ِ صدارت میں آنے والے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع حل ہو جائے تو پاکستان امریکہ کے ساتھ افغانستان میں بہتر تعاون کر سکتا ہے، تاہم اس پالیسی کو عملی شکل دینے کی بجائے صدر اوباما کچھ اور معاملات میں الجھ گئے۔ نومبر 2008 میںہونے والے ممبئی حملوں نے کشمیر کاز کو نظروں سے اوجھل کر دیا۔
اس وقت امریکہ کی افغانستان سے انخلا کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اگلے دو سال میں زیادہ تر فوجی دستے نکال لے، لیکن انسداد ِ دہشت گردی کے لئے مناسب تعداد میں دستے یہاں موجود رہیں، تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ اگر افغانستا ن میں غیر ملکی افواج موجود رہیں گی ، چاہے کوئی بھی بہانہ ہو، اس ملک میں امن قائم نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی موجود رہتی ہے تو بھی اس خطے میں قیام ِ امن کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا ۔ واشنگٹن جانتا ہے کہ افغان مسئلہ، جو دراصل اب شروع ہوا ہے، کے اختتام کی کنجی پاکستان کے پاس ہے۔ چنانچہ افغانستان میں اپنی فوجی ناکامیوں پر پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کی بجائے واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہئے۔
ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور انڈیا افغان سرزمین پر پراکسی جنگ میں الجھ جائیں گے۔ اس سے یہ خطہ اور عالمی امن شدید متاثر ہو گا، چنانچہ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت اس کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے اور یہ جنگ زدہ ملک غیر ملکی طاقتوں کی مہم جوئی سے پاک ہو جائے۔ چنانچہ مستقبل قریب میں ہونے والے معاہدوں میں افغانوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ چنانچہ امریکہ کو افغانستان میں موجود تمام دھڑوںسے بات کرنی چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے معروضی حالات ، نہ کہ خواہشات، کو مدِ نظر رکھا جائے۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭