مسلم عسکری اتحاد

مسلم عسکری اتحاد
 مسلم عسکری اتحاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گو دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن اس کے متاثرین میں اکثریتی مسلم ممالک سرفہرست ہیں۔ اس کی سرکوبی کے لئے عالمی طاقتوں کی عسکری فورس نیٹو پچھلے تیس برسوں سے برسرپیکار ہے، مگر اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔14دسمبر 2015ء کو سعودی وزیر دفاع عزت مآب محمد بن سلمان السعود نے 34مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل ایک عسکری اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ اس اتحاد کی مشترکہ کمان کا ہیڈکوارٹر سعودی دارالخلافہ ریاض ہوگا۔ اس کا مقصد امت مسلمہ کو دہشت گردی سے محفوظ کرنا بتایا گیا ہے۔ سعودی شہزادے سے استفسار کیا گیا کہ آیا اس اتحاد کا منشور داعش (دولت اسلامیہ) کا خاتمہ ہے تو انہوں نے وضاحت کی کہ جو بھی دہشت گرد تنظیم ان کے راستے میں آئے گی، وہ اس سے جنگ کریں گے۔۔۔بنگلہ دیش، مصراردن، لیبیا، ملائیشیا، نائیجیریا، پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور عرب امارات کی جانب سے معاونت کی یقین دہانی کی گئی ہے۔ سعودی قیادت بنگلہ دیش، لیبیا، نائجیریا، پاکستان، ترکی اور عرب امارات سے عسکری امداد کی توقع رکھ رہی ہے۔ افغانستان، آذر بائیجان اور انڈونیشیا نے ابھی اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ملائیشیا نے عسکری امداد دینے سے پیشگی معذرت کر لی ہے۔ اس اتحاد میں شیعہ اکثریتی مسلم ممالک عراق، شام اور ایران کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عالم اسلام دو فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے گا اور اس کے نتیجے میں فرقہ واریت کو فروغ ملے گا۔ شام اور عراق میں پہلے ہی فرقہ واریت کی بنیاد پر خانہ جنگی ہو رہی ہے۔


اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کسی ملک کی رضا مندی کے بغیر اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر مندرجہ بالا تین ممالک کی شمولیت اور تعاون کے بغیر مشرق وسطیٰ میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔ اس نئے عسکری اتحاد کو امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات قریب ہیں اور صدر اوباما پر ری پبلیکن کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ داعش کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی کی ایک وجہ داعش میں شامل وہ انتہا پسند تنظیمیں ہیں، جن کو پروان چڑھانے میں امریکی قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔’’ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔۔۔ امریکہ بہادر افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کرکے اتنا الجھ چکا ہے کہ اب اس گتھی کو سلجھانا ممکن نہیں ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں امریکہ براہ راست ملوث ہونے کی بجائے باغیوں کو ہتھیار مہیا کر رہا ہے۔ لیبیا میں حکومت کی تبدیلی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی منظوری کی وجہ سے عمل میں آئی، جبکہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے میں روس اور چین کا ویٹو آڑے آ گیا۔


اس وقت شام اور عراق میں شیعہ حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے سنی انتہا پسند طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ ترکی کردوں کی علیحدگی پسندی کی شدت کو کم کرنے کے لئے شام میں باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔ ترکی کے سرحدی علاقے سے شدت پسند بلا روک ٹوک شام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں سعودی قیادت میں نئے عسکری اتحاد کے قیام سے ثابت ہوتا ہے کہ نیٹو فورس اپنے مقاصد میں ناکام ہو چکی ہے اور اب مسلم ممالک کی عسکری طاقت کو امریکہ داعش کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کاش! عالم اسلام اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کے قابل ہوتا اور عالمی طاقتوں کا آلہء کار نہ بنتا، لیکن بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ امتِ مسلمہ مزید خلفشار کا شکار ہونے والی ہے۔ پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب فہرست میں پاکستان کا نام شائع ہوا تو ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ ان سے مشورہ کئے بغیر انہیں شامل کیا گیا۔ اگلے ہی دن انہوں نے اتحاد میں شمولیت کی تصدیق کر دی۔ اس امر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم کتنی غیر سنجیدگی سے اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے رہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ دور حکومت کی نصف مدت گزر جانے کے باوجود ابھی تک وزیرخارجہ تعینات نہیں کیا جا سکا۔


اتحاد میں شمولیت کے بعد سعودی عرب کی توقعات عسکری امداد فراہم کرنا ہے جو ہمارے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ہماری جری افواج پہلے ہی ضرب عضب میں مالی اور انسانی وسائل کی قربانی پیش کر رہی ہیں۔ حال ہی میں 29دسمبر 2015ء کو مردان میں نادرا کے دفتر کے باہر خودکش حملے سے 26قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ داعش اور اس کے حامی اندرون ملک اپنی سرگرمیاں تیز کر چکے ہیں۔ دریں حالات پاکستانی فوج کو کسی اور محاذ پر بھیجنا مناسب نہیں ہوگا۔ پاکستان پہلے ہی پراکسی جنگوں سے ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکا ہے۔ شام اور عراق کی خانہ جنگی میں بھی سعودی عرب اور ایران کی مداخلت واضح ہے۔ گزشتہ دنوں جب یمن کی خانہ جنگی میں سعودی قیادت نے پاکستانی افواج کی مدد طلب کی تو پاکستان نے انکار کیا، کیونکہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور سعودی عرب ان پر بمباری کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا دوہرا معیار ہے، وہ شام میں تو حکومت کی تبدیلی کا متمنی ہے، جبکہ یمن میں اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا ہے، جس حربی تنظیم کا قلع قمع کرنے کے لئے عسکری اتحاد بنایا گیا ہے، اس میں شامل گروہوں کو سعودی عرب مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بھی ایک مخصوص مکتب فکر کے مدارس کو سعودیہ کی جانب سے زکوٰۃ اور صدقات کی شکل میں مالی امداد مل رہی ہے۔ یقیناًہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ ہی امت مسلمہ کے لئے سلامتی کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے اور وہ تبھی ممکن ہے جب انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت فرقہ واریت کی بجائے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت ہے۔


اس وقت عسکری اتحاد سے زیادہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی شدید ضرورت ہے۔ عالم اسلام کی اقتصادی بدحالی کی وجہ نفاق اور علم کی کمی ہے۔ ہم نے اپنی علمی میراث کو پس پشت ڈال کر عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی فکری اور علمی اساس کو مضبوط بنائیں۔ اس کے بعد ہی اقتصادی ترقی ممکن ہے۔ جنگیں کبھی انسانی مسائل کو حل نہیں کر سکیں۔ عسکری اتحاد میں شمولیت اور فوجی وسائل کا بیرون ملک استعمال پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرناک ہوگا۔ ایران ہمارا ہمسایہ دوست ہے، اس کی ناراضی مول نہیں لے سکتے۔ اس سے وہ ہم سے دور ہو جائے گا اور بھارت کے قریب آ جائے گا۔ یہ ہماری تجارت اور توانائی پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ایران سے پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد پاکستان اپنی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے میں ایرانی گیس کی ترسیل سے ہماری صنعت کو خاطر خواہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔اس وقت ہمیں اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ تعاون کرکے عالمی سطح پر اور اندرون ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک آزاد اور غیر جانبدار مسلم ملک کی حیثیت میں رہ کر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونا ہے۔ ہمیں گزشتہ پراکسی جنگوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے سبق سیکھنا چاہیے نہ کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانا چاہیے۔

مزید :

کالم -