سائیں قائم دائم
گہرے سبز رنگ کا سوٹ اور اس پر غیر امتزاجی ٹائی، کلین شیو، سلجھے ہوئے بال، شستہ اُردو میں گفتگو، پہلی دفعہ ان سے ملا تو ان کی شخصیت اس طرح کی تھی۔ اب گھنے بالوں کی جگہ گنج لے چکا ہے اور کلین شیو کی جگہ چہرے پر مونچھیں سج چکی ہیں، پہلے لوگ انہیں سید صاحب یا شاہ صاحب کہتے تھے، اب سائیں کہتے ہیں۔ وہ قائم علی شاہ ہیں ، پورا نام سید قائم علی شاہ جیلانی ہے ۔سندھ کے وزیر اعلیٰ جو کبھی وفاقی وزیر بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمیشہ سے بہت سلجھی ہوئی اور نفیس شخصیت رہے ہیں، سوٹ اب بھی پہنتے ہیں مگر ساڑھے بیاسی سال کی بہاریں کچھ کچھ خزاں کے اثرات پیدا کر چکی ہیں، عمارت عظیم تھی مگر اب کبھی کبھی زبان لڑکھڑا جاتی ہے، اس کے باوجود انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عمر کے اعداد تو محض گنتی کے لئے ہیں میں تو ابھی جوان ہوں۔سید قائم علی شاہ نے کبھی پارٹی نہیں بدلی، پیپلزپارٹی ان کا بہت احترام کرتی ہے، اسی لئے مختلف رہنماؤں کی طرف سے وزیر اعلیٰ تبدیل کئے جانے کی تجاویز کے باوجود قیادت کا ووٹ قائم علی شاہ ہی کے حق میں جاتا ہے۔
بظاہر خاموش طبع ہیں، مگر سیاسی تجربے نے ان کی ذات میں سیاسی پختگی بھر دی ہے۔ اس کا بھرپور اظہار انہوں نے سندھ میں تعینات رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے اپنے اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات استعمال کر کے کیا، خواہ پارٹی قیادت کی پالیسی ہی کے تحت خواہ قیادت کے حکم پر۔۔۔سید قائم علی شاہ وکالت کے شعبے سے منسلک رہے مگر پھر سیاست ہی کو اُوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ خیرپور میرس کے رہنے والے ہیں مگر زندگی کراچی میں گزری، مجبوری کے باعث وزیر اعلیٰ ہاؤس میں قیام پذیر ہیں مگر ان کا اپنا گھر کراچی ڈیفنس میں ہے، وزارتِ اعلیٰ چھوٹے گی تو واپس اسی گھر جائیں گے۔دوبار پہلے بھی وزیر اعلیٰ سندھ، وفاقی وزیر صنعت و امورِ کشمیر اور سینٹر رہے ہیں،ان کی شادی جوانی ہی میں ہو گئی تھی جس کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم خیرپور میرس سے کراچی آ کر حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور پھر ایل ایل بی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو قانون پڑھاتے تھے۔ قائم علی شاہ اپنے اس استاد سے بہت متاثر ہوئے اور یہ تعلق ذوالفقار علی بھٹو کے صدرِ مملکت اور وزیر اعظم بننے سے لے کر ان کی وفات تک جاری رہا۔ وہ 1967ء سے پیپلزپارٹی میں بھٹو کے ساتھ تھے اور اب تک اسی پارٹی میں ہیں۔ یہ ان کے اعزازات میں شامل ایک کریڈٹ ہے۔ سید قائم علی شاہ بولتے کم اور کام زیادہ کرتے ہیں انگریز محاورے پر عمل کرتے ہیں۔ ’’عملی طور پر کیا ہوا کام بولے ہوئے لفظوں سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔‘‘
رینجرز نے آصف علی زرداری کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا تو سید قائم علی شاہ نے ان کے لئے ڈھال بننے کی کوشش کی، دباؤ ڈال کر پولیس والوں سے ڈاکٹر عاصم حسین کے حق میں رپورٹ کروالی، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ سندھ اسمبلی سے ایک غیر روایتی قرار داد منظور کرالی جس کے ذریعے رینجرز کے وفاقی ادارے کے اختیارات کا تعین کیا گیا، یہ درست اقدام نہیں تھا۔ محض سیاسی حربہ تھا جو وفاقی حکومت نے ناکام بنا دیا ۔صوبائی اداروں کے اختیارات اور قواعد و ضوابط کا تعین صوبائی حکومت ،صوبائی اسمبلی اور وفاقی اداروں کے اختیارات کا وفاقی حکومت یا قومی اسمبلی کو کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے رینجرز کے بارے میں وفاقی حکومت نے اپنی اتھارٹی استعمال کر لی اور صوبائی حکومت کی سمری مسترد کر دی ۔سید قائم علی شاہ نے ہار نہیں مانی اور وزیر اعظم نوازشریف کے دورۂ کراچی میں واضح کر دیا کہ وہ رینجرز اختیارات کے بارے میں وفاقی حکومت کے فیصلے سے مطمئن نہیں، وہ کچھ الجھے الجھے ہوئے محسوس ہوئے۔وزیر اعظم نے انہیں اسلام آباد میں بیٹھ کر بات کرنے کو کہا اور پھر دونوں کی ملاقات وفاقی دارالحکومت میں ہوئی مگر معاملات کسی واضح صورت میں طے نہیں ہوئے۔
اس ملاقات میں سید قائم علی شاہ نے اپنے موقف میں کوئی لچک نہ دکھائی، ڈاکٹر عاصم حسین کا دفاع کیا، ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو انتقامی کارروائی قرار دیا اور اصرار کیا کہ سندھ کے سیاسی و انتظامی معاملات میں غیر ضروری مداخلت بند کی جائے۔ نوازشریف نے ان کی بات پوری توجہ سے سنی اور یہ کہہ کر انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی کہ کراچی آپریشن کے کپتان آپ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ سید قائم علی شاہ نے اس بات کا کوئی خاص اثر نہیں لیا ،تاہم طے پایا کہ رینجرز اختیارات کے بارے میں بات چیت بھی جاری رہے گی۔ ملاقات کے بعد سید قائم علی شاہ نے کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، رینجرز کے بارے میں ان کی بات سننا ہی پڑے گی۔ وفاق ہماری بات مان لے ورنہ ساٹھ دن بعد تو ماننا ہی پڑے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سائیں ابھی تک قائم دائم ہیں۔