زیر بحث موضوع۔۔۔!!
ادارے فعال کردار ادا کریں، تو بہتری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ ادارے فعالیت کی طرف رواں دواں ہوں تو حکومت پربھی اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ اداروں کی ’’کارکردگی‘‘ درحقیقت حکومتی کارکردگی کی مظہر ہوتی ہے۔ ملک میں ویسے تو بہت سے ادارے ہیں جنہیں حکومتی مشینری کو چلانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک ادارے کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہو یا حکومت مشینری میں اُس کا کوئی فعال کردار نہ رہے تو حکومت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔چند اہم حکومتی ادارے ہیں، جن میں پولیس، رینجرز، عدلیہ، نیب، ایف آئی اے، انٹیلی جنس، اینٹی کرپشن اور احتساب سمیت دیگر ادارے شامل ہیں۔ جن میں وفاقی اور صوبائی محتسب اداروں کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہر ادارے کی اپنی اپنی حدود ،ذمہ داریاں اور اختیارات، فرائض ہیں۔ اختیارات و فرائض ، حدود اور ذمہ داریوں کے صحیح یا درست استعمال نہ ہونے کی صورت میں جو برائیاں یا خرابیاں جنم لیتی ہیں اُن کا ذکر ایک ضخیم کتاب مرتب کر سکتا ہے، تاہم اُن چند اداروں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جن کی بہتری یا کارکردگی سے مجموعی طور پر معاشرے میں بھی بہتری نظر آنے لگتی ہے، ورنہ جو حال ہو اُس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
مسائل بڑھ رہے تھے۔ امن کی دگرگوں صورتِ حال نے معاشرے کی ابتری میں بھی اضافہ کر دیا تھا جو روز بروز بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ایسے میں فوج اور رینجرز نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں سیاسی قیادت کی بھی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ پہلے ’’ضربِ عضب‘‘ کا آغاز ہوا۔ یہ فوجی کارروائی دہشت گردوں کے خلاف تھی۔ جو ملکی عدم تحفظ کا باعث بن رہے تھے اور حکومت سمیت تمام سیکیورٹی فورسز کے لئے چیلنج بن چکے تھے۔ فوج کو جنرل راحیل شریف اور حکومت کو نواز شریف جیسا لیڈر اور رہنما میسر نہ ہوتا تو شاید آج ’’ضربِ عضب‘‘ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی۔ صاف نظر آ رہاہے کہ پاک وطن سے دہشت گردوں کا خاتمہ اب یقینی ہے۔ فوجی اور سیاسی قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ انہیں بالآخر دشمن کے مقابلے میں ’’فتح‘‘ حاصل ہونی ہے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اس جنگ کو جاری رہنا ہے۔فوجی اور سیاسی قیادت کا یہی وہ عزم صمیم ہے جس نے قوم میں نئی روح پھونکی ہے اور اپنی فوج سے وہ بڑے پُرامید ہیں کہ سیکیورٹی کا یہ اہم ادارہ نہ صرف اپنی جغرافیائی سرحدوں ،بلکہ اندرونی تحفظ کی بھی ضمانت ہے۔
کراچی، ایک بڑا سیکیورٹی مسئلہ تھا۔ اس نے طویل عرصے سے ملکی معیشت کو برباد کر رکھا تھا۔و قت گزرنے کے ساتھ اس میں اور بھی بگاڑ پیدا ہو رہا تھا۔یہاں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات نے نہ صرف یہاں کی سیاسی قیادت ،بلکہ مقامی پولیس پر بھی بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے تھے۔ وہ سب ان ’’گینگز‘‘ کے سامنے مایوس، ناامید اور ناکام نظر آتے تھے۔ ایسے میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی کے امن کو استحکام دینے کے لئے یہاں رینجرز بھیجی جائے۔ یہ فیصلہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت، دیگر سیاسی جماعتوں اور حکومت پاکستان نے مل کر کیا۔ بالآخر کراچی رینجرز کے سپرد ہو گیا۔ رینجرز، کراچی پولیس کے ساتھ مل کر ’’اِن ایکشن‘‘ ہوئی تو کراچی کا امن واپس لوٹنے لگا۔ فوجی قیادت اور وفاقی حکومت کراچی کے تمام معاملات کو باریک بینی سے ’’واچ‘‘ کرتی رہی اور بہتر رزلٹ سامنے آنے لگے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم کراچی سے قریباً ختم ہو گئے، مگر جب سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم رینجرز کے ہتھے چڑھے تو ’’انکشافات‘‘ کا ایسا پٹارہ کھلا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپنے کوچیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر رینجرز کے اختیارات پر قدغن لگانا پڑی اور وہ کراچی میں رینجرز کے قیام اور اختیارات کی آئینی مدت کو توسیع دینے یا اُس کی تجدید سے گریزاں نظر آنے لگے، جس پر ایک طوفان کھڑا ہوا۔
وفاقی حکومت اس ایشو پر سندھ حکومت کے سامنے ڈٹ گئی۔ اپوزیشن جماعتیں بھی سندھ میں سراپا احتجاج بنیں، جبکہ رینجرز کی حمایت میں سول سوسائٹی کے لوگ اور تاجر سڑکوں پر آ گئے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اداروں کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ کوئی ادارہ اچھا کام کرے، تو لوک کسی رکاوٹ پر اُس کے لئے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں نیب کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کرپشن اور کرپٹ مافیا کے خلاف اس کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اب تک بااثر کرپٹ مافیا سے اربوں روپے کی ریکوری کرچکا ہے اور اب بھی اس مشن پر گامزن ہے۔ ہمارے ہاں دو ادارے اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ،لیکن بے پناہ اختیارات کے باوجود یہ اپنی ذمہ داریاں اُس طریقے سے نہیں نبھا رہے، قوم جس کی اُن سے توقع رکھتی ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ان اداروں میں بھی کرپٹ مافیا موجود ہے جو نہ صرف کرپٹ افراد کی سرپرستی کرتا ہے، بلکہ کسی شکایت پر انہیں پکڑنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ ادارے مضبوط ہو جائیں۔ اپنی ذمہ داریوں، اختیارات اور فرائض کو سمجھیں تو ہم اپنے ملک کو صحیح رفاہی اور فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔ عدلیہ سمیت ہر ادارے میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔