لاڈلا بچہ ناراض

لاڈلا بچہ ناراض
لاڈلا بچہ ناراض

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بجا کہا ہے برادرم وسعت اللہ خان صاحب نے کہ بے جا لاڈ کی وجہ سے اسرائیل اُس بگڑے ہوئے بچے کی مانند ہے جس نے عالمی برادری کا سب سے زیادہ ناک میں دم کررکھا ہے، لیکن یہاں ایک اور بات کا اضافہ کرناچاہتاہوں کہ اس لاڈلے نے فقط بیسویں صدی کے کنبے کو دقِ نہیں کیا، بلکہ اس کاشر ہر دور میں اپنی مثال آپ رہاہے۔آج اگر یہ برطانیہ جیسی ماں اور امریکہ جیسے سوتیلے باپ کو بھی آنکھیں دکھارہا ہے تو یہ کون سی عجیب بات ہے ،ان سے تو انبیاء جیسے عظیم مربی اور روحانی باپ بھی خدا کی پناہ مانگنے لگے تھے۔


کہا جاتاہے کہبابل کا بادشاہ بخت نصر پہنچ چکاتھااوراپنی طوفانی فوجوں سے یر وشلم کی اینٹ سے اینٹ بجوارہاتھا،جبکہ ان کے حکام عیش ونشاط میں محو تھے اور ان کے علمائے کرام اس بات پر اس وقت مناظرے کررہے تھے کہ ایک سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں ۔خون کی ہولی کھیلنے کے بعدبخت نصروہاں کے بادشاہ کو ذلت سے بے شماریہودیوں کے ساتھ بابل لے گیااور یہ ان کی غلامی میں نصف صدی تک آنسو بہاتے رہے،پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک اور موقع دے ڈالا۔


536ق م میں ایران کے فرمانروا خسرو نے بابل پر چڑھائی کرکے اسے فتح کرلیا اور بنی اسرائیل کو آزادی دلوادی دی ۔انہیں پھر سے فلسطین میں آباد ہونے اور بیت المقدس تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر ہوئی اور یہ حضرت عزیر علیہ السلام کی موجودگی میں توبہ کرکے آٹھ آٹھ آنسو روتے رہے اور آئندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کاوعدہ کیا ۔ بعدمیں وہ پھر پٹڑی سے اُترنے لگیتو بخت نصر کی جگہ اس بار ان پر رومی شہنشاہ مسلط ہوگیا ،جس نے بیت المقدس زمین بوس کردی ،ان کو اپنے بچوں سمیت تہہ تیغ کردیا ، اور جو بچ گئے، انہیں لوٹ کھسوٹ کر جلاوطن کردیا ۔ان پر ایک ایساوقت بھی آیاکہ فرعون جیسا خدائی کا دعویدار ظالم ان پر مسلط تھا،ان سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا تھا،ان کے بچے تہہ تیغ ہوتے تھے ،لیکن جب حضرت موسیٰ کو ان کی طرف مبعوث کیا گیا اور انہیں فرعون کے چنگل سے آزادی دلوادی تو یہ حضرت موسیٰ جیسے جلالی پیغمبر کے ساتھ بھی ٹیڑھے رہے ۔وہ موسیٰ جس نے ان کے جینے کا حق محفوظ کیا ، انہیں حقیقی خدا سے ملنے کا راستہ بتادیا۔وہ موسیٰ جنہوں نے اسے اتنا لاڈاور پیار سے نوازا کہ زمینی غذا دلوانے کی بجائے افلاک سے ان کی خوراک کا بندوبست کرڈالا ۔ان کی ہٹ دھرمیوں کے چندایک واقعات یہاں ملاحظہ کیجئے، جس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی سرشت میں کس قدر کج روی موجود تھی۔ایک بار بنی اسرائیل میں ایک آدمی مارا گیا، جس کے قاتل کا سراغ لگانا مشکل ہوگیا۔


لاپتہ قاتل کاکھوج لگانے کے لئے یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے ،ان سے بفضل خداوندی قاتل کو معلوم کرنے کی درخواست کی ۔حضرت موسیٰ نے انہیں ایک گائے ذبح کرنے پر مامورکیاکہ اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پرضرب لگاؤ، وہ قاتل کی نشاندہی کردے گا۔اب اسرائیلوں کیکٹ حجتی شروع ہوئی ۔ موسیٰ نے مطلق گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن یہ حسب عادت اور اپنی جبلت کے مطابق اس میں کیڑے نکالنے لگے ۔ سوال کرنے لگے کہ آپ اپنے رب سے یہ معلوم کروالیں کہ اس گائے کے اوصاف کیا ہوں گے ؟ جب انہیں حضرت موسیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ ایسی گائے ہو جو بڑی عمرکی ہو اور نہ ہی بچہ ،بلکہ درمیانی عمرکی ہو۔موسیٰ نے یہ بھی کہا کہ اب حکم بجالائیے، مزید حجتوں سے گریز کریں۔یہ پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور دوسری مرتبہ پھرپیغمبر سے مطالبہ کیا کہ آپ اپنے رب سے اس گائے کے رنگ کے بارے میں بھی ہمیں جانکاری دلوادیں ۔موسیٰ پھر فرمانے لگے کہ اس کے رنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ وہ زرد رنگ کی ہو، جس کا رنگ تیز ہو تاکہ ناظرین کے لئے فرحت بخش ہو‘‘۔اب یہ ایک اور مطالبے کے ساتھ آئے کہ اب ہماری خاطر اپنے رب سے یہ بھی دریافت کرلیں کہ کیسی گائے مطلوب ہے ، ہمیں اس تعین میں اشتباہ ہوگیا ہے۔اللہ نے چاہا تو ہم اس کا پتا پالیں گے۔موسیٰ نے پھر جواب دیا کہ ’’ اللہ فرماتا ہے کہ ایسی گائے ہو جس سے خدمت نہیں لی جاتی ،نہ زمین جوتتی ہے، نہ پانی کھینچتی ہے، بلکہ صحیح سالم اور بے داغ ہو۔
اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں ، اب تم نے ٹھیک پتا دیا ،پھر انہوں نے اسے ذبح کیا ۔قرآن یہاں مزید فرماتا ہے کہ’’ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے‘‘۔مصر سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل صحرائے سینا میں پہنچے تو دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی جائے پناہ انہیں میسر نہ تھی، لیکن خدا کی طرف سے ایک مدت تک آسمان کو ابر آلود رکھا گیا ۔اس مہاجرت کے زمانے میں انہیں من وسلویٰ جیسی قدرتی غذائیں چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں،لیکن یہ پھر بھی ناشکرے بنے رہے اور من وسلویٰ کی بجائے ساگ ، ترکاری ، کھیرا ، ککڑی ، گیہوں ، لہسن ، پیاز اور دال کا مطالبہ کرنے لگے۔ ہاں توبات کا مدعایہ تھا کہ یہ ماضی سے اپنی شرارتوں کی وجہ سے بیسویں صدی تک ہرجگہ مذموم چلے آئے ، پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1917 کے بالفور ڈیکلریشن کے تحت، ملکہ برطانیہ نے ارض فلسطین پر انہیں بسانے کی راہیں ہموار کردیں۔ چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کوجیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈبن گوریان نے باضابطہ طورپراسرئیلی ریاست کے قیام کا علان کردیا۔ قیام کے دن سے لے کر آج تک لاکھوں فلسطینیوں کاخون کرچکاہے، ہزاروں کو اپنے علاقوں سے بے دخل کردیا ہے اور ان کی زمینوں پرتاحال آبادکاریاں کررہے ہیں۔ مغرب کے ان لاڈلوں کا خبث باطن اب ان کے تربیت یافتگان پر بھی آشکار ہورہا ہے ،اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کسی بھی ریاست کی اتنی مذمت نہیں کی ہے، جتنا کہ اسرائیلی ریاست کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔اڑسٹھ سال کے طویل عرصے میں فلسطین اسرائیل تنازعے پر اسرائیل کے خلاف دوسوچھبیس کے قریب قراردادیں اقوام متحدہ میں پیش کی جاچکی ہے، جسے امریکہ مسلسل اپنے حق استرداد کے ذریعے ناکارہ بنادیتاہے۔ بھلا ہو اوبامہ کا، جنہوں نے ایک ہفتہ پہلے اس لاڈلے بچے کے سرسے دست شفقت کھینچتے ہوئے اس کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔یوں قرارداد منظور اور لاڈلا بچہ ناراض ، لیکن سنا ہے کہ اس لاڈلے کی نازبرداری کیلئے ٹرمپ صاحب آرہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’ اسرائیل حوصلے سے کام لیں ،بیس جنوری بہت تیزی سے قریب آرہی ہے‘‘۔

مزید :

کالم -