5سال قبل افغانستان سے گرفتارہونے والے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے اہم لیڈرمولوی فقیر محمد کے بارے میں اب تک کی سب سے بڑی خبر آ گئی ،اس وقت کہاں اور کس حالت میں ہیں ؟جان کر آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا

5سال قبل افغانستان سے گرفتارہونے والے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے اہم لیڈرمولوی ...
5سال قبل افغانستان سے گرفتارہونے والے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے اہم لیڈرمولوی فقیر محمد کے بارے میں اب تک کی سب سے بڑی خبر آ گئی ،اس وقت کہاں اور کس حالت میں ہیں ؟جان کر آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان میں دہشت گردی کی سینکڑوں وارداتوں میں ملوث دہشت گرد تنظیم ’’تحریک طالبان پاکستان ‘‘ کے اہم رہنما مولوی فقیر محمد کے بارے میں اہم انکلشاف سامنے آیا ہے کہ وہ اس وقت افغانستان کی بگرام جیل میں قید ہیں جہاں ان کے ساتھ 200کے قریب پاکستانی اور افغان طالبان بھی قیدی کی حیثیت سے اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:نائیجریا کی مسجد میں خود کش دھماکہ ،14افراد جاں بحق کئی زخمی
تفصیلات کے مطابق ’’برطانوی خبر رساں ادارے ‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق نائب امیر مولوی فقیر محمد کئی برسوں سے افغانستان کی بگرام جیل میں ہیں جہاں دیگر پاکستانی اور افغان طالبان بھی ان کے ساتھ قید ہیں۔یاد رہے کہ مولوی فقیر محمد کو پانچ سال قبل افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ سے افغان سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا، اس کے بعد سے وہ کہاں رہے؟ اس بارے میں معلوم نہیں تھا۔ بگرام جیل سے ٹیلی فون پر’’ بی بی سی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مولوی فقیر محمد نے بتایا کہ وہاں قید میں ان کے ساتھ انتہائی غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے اور بیشتر قیدی علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ جیل میں 2 سو پاکستانی اور افغان طالبان قیدیوں کو ایک ہی بیرک میں رکھا گیا ہے جہاں کوئی ڈاکٹر آتا ہے اور نہ ہی جیل حکام قیدیوں کو دوائی وغیرہ دیتے ہیں۔تاہم بی بی سی نے یہ نہیں بتایا کہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں افغان جیل میں قید مولوی فقیر محمد کے پاس فون کی سہولت کس طرح میسر آئی ؟۔واضح رہے کہ ماضی میں افغان حکومت نے مولوی فقیر محمد کی رہائی کے بدلے پاکستان کے سامنے کچھ شرائط رکھی تھیں جن میں ملا برادر سمیت اہم طالبان کمانڈروں کی رہائی اور انہیں افغان حکومت کے حوالے کرنا شامل تھالیکن پھر یہ تبادلہ اختلافات کی وجہ سے نہیں ہو سکا تھا۔