خناق۔۔۔ سردی اور گندگی سے پھیلتا ہے
جراثیم سانس کے ذریعے ایک بچے سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں
زلیخا اویس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم بدلتے ہی پیراہن ہی نہیں بلکہ بیماریوں کے بھی نام تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ بیماریاں گرمیوں اور کچھ سردیوں کے موسم سے منسلک ہیں۔ اس لئے موسم بدلتے ہی ان موسمی بیماریوں کے جراثیم بھی انسانوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔جب موسم بدلتا ہے تو اس وقت بعض بیماریوں کے جراثیم ان لوگوں کے جسم میں حملہ آور ہوتے ہیں جن میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ موسم کی تبدیلی میں بعض بچوں کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ گرم موسم سے سرد موسم اور سرد موسم سے گرم موسم میں تبدیلی سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خناق کیاہے؟
خناق بچپن میں ہونے والی ایک عام بیماری ہے۔ جوکہ وائرل انفیکشن ( زہریلے مادے سے لگنے والی بیماری )کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہ وائرس سانس لینے کی ہواکی نالیوں کے اوپری حصہ پر سوجن پیدا کرتا ہے جس میں نرخرہ اور سانس لینے کی نالی شامل ہیں۔یہ سوجن بچے کی آواز میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اور سانس لینے کو مشکل بناتی ہے۔ یہ خاص کر نوزائیدہ بچوں اور چھوٹے بچوں میں ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کی سانس لینے کی نالی چھوٹی ہوتی ہے۔خناق کا جراثیم گرم موسم سے سرد موسم میں تبدیلی پر چھوٹے بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔خناق ایک خطرناک اور چھوت کی بیماری ہے۔ خناق کا جراثیم سردی اور گندگی کی وجہ سے ان بچوں میں حملہ آور ہوتا ہے جن میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ اس کا انفیکشن سانس کے ذریعے ایک بچے سے دوسرے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق خناق کی ویکسین بچوں کو بچپن میں ہی دینے سے اس کی بیماری پر کافی قابو پایا جا چکا ہے۔ اس کی ویکسین بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے کورس میں شامل ہوتی ہے خناق کی ویکسین کی خوراک 14ہفتوں کی عمر تک کے بچوں کو تین مرتبہ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد جب بچہ ڈیڑھ سال کا ہو جائے تو اس کو اس ویکسین کی بوسٹر خوراک دی جاتی ہے جو کہ بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ خناق کا جراثیم ان بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے جنہوں نے حفاظتی ٹیکوں کا کورس نہ کیا ہو یا پھر وہ بچے جن میں قوت مدافعت کم ہو اور ان بچوں میں خناق کا Corynebacterium diphtheriae جراثیم گلے میں حملہ آور ہو کر انفیکشن پیداکرتا ہے۔ اس مرض کی علامات دو سے سات دنوں کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات میں بخار، گلا خراب، سانس لینے میں دشواری اور کھانسی ہوتی ہے۔ اگر خناق کا مرض پیچیدگی اختیار کر لے تو اس کے جراثیم دل اور اعصاب پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس لئے سردیوں میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہ کریں۔ ان کو صاف ستھرے ماحول کے ساتھ ٹھنڈ سے بھی بچا کر رکھیں اور اگر بچے کو بخار اور گلا خراب کے ساتھ سانس میں دشواری ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ بر وقت علاج سے اس بیماری کے جراثیم کے مضر اثرات سے بچوں کو بچایا جا سکے۔ سرد موسم اور گندگی میں Corynebacterium diptheria
جراثیم ایک خاص قسم کا زہر پیدا کرتا ہے جسے exotoxinکہتے ہیں۔ یہ ایگزوٹاکسن گلے میں حملہ آور ہو کر انفیکش پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد خون میں شامل ہو کر دل اور دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس انفیکشن سے گلے میں سوزش ہوتی ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور بہت قلیل مقدار میں ہوا اندر جاتی ہے۔ بڑے بچوں کی سانس کی نالی بڑی ہوتی ہے اس لئے ان میں سانس لینے میں دشواری کے اثرات کم ہوتے ہیں۔ جب سے اس مرض کی ویکسین بچوں کو بچپن میں حفاظتی ٹیکوں کی صورت میں لگائی جاتی ہے تب سے اس مرض میں مبتلا بچوں کی تعداد میں کمی ہو گئی ہے۔ خناق کے جراثیم کو exotoxin پیدا کرنے والے جراثیموں میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ چھ ماہ اور ان سے بڑے بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات رات کے وقت دیکھی جاتی ہیں یعنی اس مرض کی ابتداء رات کو ہوتی ہے۔ کچھ بچوں میں تو اس کا حملہ ایک بار ہوتا ہے جبکہ بعض بچوں میں جن میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے ان پر اس جراثیم کا حملہ بار بار ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات میں غذا نگلتے وقت حلق میں درد اور بخار میں بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہو تا ہے۔ ہیضہ، بے چینی، نقاہت اور جسم پر سرخ نظر آئیں گے۔ اچانک خطرناک کھانسی شروع ہو جائے گی اور کھانسی کرتے وقت ایسے محسوس ہو گا یا مریض کی آواز ایسی ہو گی جیسے گلا دبایا ہو۔ سانس لینے میں بچے کو دشواری ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ فرسٹ ایڈ کے طور پر بچے کو سٹیم دیں۔ سٹیم ایسے بھی دے سکتے ہیں غسل خانے کی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے گرم پانی کا نل کھول دیں۔ جب غسل خانہ سٹیم سے بھر جائے تو اس میں بچے کو زور زور سے سانس لینے کو کہیں۔ اس عمل کے دس منٹ کے بعد بچے کی سانس بحال ہو جائے گی اور کھانسی رک جائے گی۔ اس کے بعد بچے کو بستر پر لٹا دیں۔ اگر بچے کو دوبارہ سانس لینے میں دشواری اور کھانسی آئے تو اس کو دوبارہ غسل خانے میں لے جا کر سٹیم دیں اور ڈاکٹر کو چیک کروائیں۔
سب سے اہم مسئلہ خناق کی تشخیص ہے اگر مریض کے گلے میں پیپ بن گئی ہے، پیپ ٹوٹے ہوئے سیلز اور خون کے ذرات سے بنتی ہے اور ایک سخت سی جھلی گلے میں بن جاتی ہے۔اس میں بیکٹریا کے جراثیم بے شمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر حضرات جیسے ہی اس مرض کی علامات کے ساتھ گلے میں سفید جھلی دیکھتے ہیں تو پھر اس جھلی کا لیبارٹری ٹیسٹ ارجنٹ بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اس مرض کے علاج میں وقت کواہمیت دی جاتی ہے ورنہ مرض طول پکڑ لیتا ہے کیونکہ جو جراثیم اس مرض کو پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہ ایسا زہر پیدا کرتے ہیں جو دماغ اور سانس لینے کے عمل کے نظام پر حملہ کرتا ہے۔ اس سے سانس لینا مشکل ہی نہیں سانس لینا بند بھی ہو سکتا ہے۔
خناق کی تشخیص ہونے کے بعد بچے کو خناق کا اینٹی ٹوکسین کا ٹیکہ لگوانا ضروری ہوتا ہے تاکہ جو زہر بچے کے جسم میں پیدا ہو چکا ہے اس کو یہ ٹیکہ نیوٹرلائز کر دے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک کے خوراک فوری طور پر دی جائے تاکہ گلے کے جراثیم ختم ہو سکیں۔ ایسے بچوں کو انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں اور دوسرے بچوں سے الگ بھی رکھا جائے کیونکہ یہ مرض ایک بیمار بچے سے دوسرے صحت مند بچوں کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ اس بیماری سے بچنے کے لئے DPT ویکسین ضروری ہے۔ یہ ویکسین خناق کے علاوہ کالی کھانسی اور تشنج سے بھی بچاتی ہے۔ حکومت پاکستان کے EPI پروگرام کے تحت ہر بچے کو DPT ویکسین لگائی جاتی ہے۔ یہ ویکسین EPI شیڈول کے مطابق بچے کو 6 ہفتے کی عمر میں پہلی بار، 10 ہفتے کی عمر میں دوسری بار اور 14 ہفتے کی عمر میں تیسری بار لگائی جاتی ہے۔ موثر بچاؤ کے لئے تینوں مرتبہ یہ ویکسین لگانا ضروری ہے۔
EPI پروگرام میں DPT ویکسین کے ساتھ ہی ہیپاٹائٹس B اور انفلوئنزا (HiB) کی ویکسین بھی لگائی جاتی ہے۔ اس طرح بچے کو بیک وقت 5 بیماریوں کے خلاف امونائز کیا جاتا ہے اور شیڈول میں اس کو PENTA یعنی 5 ویکسینز کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ خناق سے بچاؤ کا آسان اور واحد موثر راستہ یہ ویکسین ہی ہے۔ عوام میں عمومی آگاہی مہم کی شدید ضرورت ہے تاکہ والدین کو پتہ ہو کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کب ، کیوں اور کونسا حفاظتی ٹیکہ لگوانا ہے اور ایسا نہ کرنے سے ان کے بچوں کی جان کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ویکسین کی کولڈ چین (یعنی ویکسین کو سٹور کرنے اور اس کی نقل و حرکت کے دوران ویکسین کا ٹمپریچر مخصوص درجہ حرارت سے کم یا زیادہ نہ ہونے دینا) انتہائی اہم ہے۔ اگر ویکسین کو صحیح طرح کولڈ چین کے ذریعے مناسب درجہ حرارت پر نہ رکھا جائے تو اس کی افادیت مکمّل طور پر ختم ہو سکتی ہے اور ایسی ویکسین دینا محض سادہ پانی دینے کے مترادف ہے۔ DPT کو 2.8c کی رینج میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے فریز نہیں ہونے دینا چاہئے ورنہ ویکسین ضائع ہو جاتی ہے اور اس کو استعمال کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ خناق کا علاج اینٹی بائیوٹک کے ذریعے ممکن ہے مگر خناق میں شرح اموات 20% تک ہے یعنی ہر 5 میں سے ایک بچہ جن کو خناق ہو، فوت ہو سکتا ہے۔
والدین کے لئے ضروری ہدایت یہ ہے کہ جب بھی موسم تبدیلی کے مراحل میں ہو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں ذرّہ بھر بھی کوتا ہی نہ کریں۔
***