سابق صدر آصف علی زرداری سے گلوکار سلمان احمد تک
فنکار سے سیاستدان بننے والوں کی کامیابی اور ناکامی کی داستان
اگر پاکستانی سیاست کی 70 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں نہ صرف ڈرامائی تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ہمارے کچھ سیاستدان ایسے بھی ہیں جو فن کی دنیا سے تو وابستہ نہیں رہے مگر فنکاروں میں ان کی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔بلکہ پاکستانی سیاست میں وہ لوگ بھی نظر آئیں گے جوخود فن کی دنیا سے وابستہ رہے اور کافی عرصے تک ٹی وی سکرین اورسٹیج کے پردوں پراداکاری و گلوکاری کرتے رہے۔لیکن ان میں سے کچھ افراد سیاست میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے، جو انہیں سکرین کے پردے پر حاصل ہوا، لیکن کچھ تو سیاست میں دیوتا بھی بن گئے۔سیاست کی سٹیج ٹی وی اورسٹیج ڈراموں سے قدرے مختلف ہوتی ہے، شاید اسی وجہ سے ہی پاکستانی شوبز کے متعدد افراد سیاست میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے جو ایک پیدائشی سیاستدان کو حاصل ہوتا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اداکاری سے کیریئر کے شروعات کرنے والے تمام لوگ ناکام سیاستدان ثابت ہوئے ۔پاکستان کے سا بق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا ماننا ہے کہ وہ بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کے مداح ہیں اور ایشوریا رائے انہیں اس قدر پسند ہے کہ جب وہ جیل میں تھے تو اپنے لیپ ٹاب پر وہ اکثر ایشوریا رائے کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کے بھی وہ مداح ہیں۔پاکستانی حکمرانوں کی دیگر خصوصیات میں ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے دیگر معاملات میں دلچسپی لینے کے ساتھ وہاں کے فنکاروں کے بارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں بھارت کے سیاست دان ہمارے ملک کے فنکاروں کے بجائے صرف سیاست دانوں پر ہی توجہ دیتے ہیں؟ میں نے جب یہ سوال اپنے ایک صحافی دوست سے پوچھا تو اس نے برجستہ کہا کہ یار وہاں کے سیاست دان ہمارے ملک کے سیاست دانوں ہی کو فنکار سمجھتے ہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ سیاست دان چاہے کسی ملک کا بھی ہو فنکارانا صلاحیتیں تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو اکثر و بیشتر اپنی انہیں صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔ سابق صدر مرحوم ضیاء الحق صاحب بھارتی اداکار شتروگن سنہا کے اس قدر مداح تھے کہ انہوں نے سنہا صاحب کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی تھی۔ یوسف گیلانی بھی اپنی پسند کے حوالے سے ایسا نہ کرسکے۔بات ہورہی تھی بھارتی فنکاروں میں پاکستانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کی دلچسپی کاہمارے ایک اور سابق صدر بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں تھے وہ تو پورے بھارت سے ہی محبت کرتے ہیں اور وہاں کی اداکارہ رانی مکھرجی ان کو بہت ہی اچھی لگتی ہے ہوسکتا ہے یہ اطلاع غلط ہو مگر اطلاع یہ ہی ہے بہرحال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دلچسپی ایک گلوگارہ پر رہی ہے لیکن وہ بھی اپنے ہی وطن کی ہیں اب یہ واضع نہیں ہے کہ کیا صورتحال تھی اس دلچسپی کی؟ اگر ہماری اگر خاتونِ اول کے اعزاز کی طرح ہمارے وزراء اعظم یا صدور کی پسندیدہ اداکاراؤں کو بھی کوئی اعزاز سے نوازنے کی روایت ہوتی تو یہ اعزازات زیادہ تر بھارتی اداکاراوں کے حصے میں آجاتے اور اگر کوئی بچ جاتا تو ایک آدھ ہماری گلوگارہ کو بھی مل جاتا۔ بہرحال شکر ہے کہ یہ روایت نہیں ہے۔ ورنہ بھارت ہمارے حکمرانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک کے اداکاراؤں کی خدمت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دیتا نہ کہ کشمیر پر ۔اداکاری میں چھوٹے اور مختصر کردار ادا کرنے کے بعد حادثاتی طور پر سیاست میںآنے والے سابق صدر آصف علی زرداری اس ضمن میں سب سے بہتر اور کامیاب مثال ہیں، اس کے علاوہ ان کی پارٹی کی سابق رکن اسمبلی فوزیہ وہاب اور حالیہ صوبہ سندھ کی رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی اور پنجاب کی رکن رکن اسمبلی کنول نعمان بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔تاہم پاکستانی سیاست میں کئی ایسے لوگوں کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جو شوبز کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کا شمار بھی دنیا کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جو حادثاتی طور پر اقتدار میں آئے اور ہمیشہ کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہوگئے۔کاروباری اور سنیما گھروں کے حوالے سے کام کرنے والے سیاسی کارکن حاکم علی زرداری کے گھر میں پیدا ہونے والے آصف علی زرداری بھی اپنے بچپن میں ’’سالگرہ‘ ‘نامی فلم میں چائلڈ سٹار کے طور پر کام کرچکے ہیں۔آصف علی زرداری کا زیادہ تعلق جہاں اداکاری سے نہیں ہے، وہیں ان کا تعلق پاکستانی سیاست میں بھی 2008 سے پہلے اتنا اہم نہیں تھا، البتہ بے نظیر بھٹو کے شوہر ہونے کی وجہ سے ان کا نام پاکستانی سیاست میں سنا جاتا تھا۔انہوں نے اپنے دور صدارت میں کئی اہم کارنامے سر انجام دئیے، جب کہ وہ متنازع صدر بھی رہے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے سے شہرت حاصل کرنے والی فوزیہ وہاب نے سیاست کی شروعات تو 1993 میں کی، لیکن وہ اس سے پہلے اداکاری کر چکی تھیں۔فوزیہ وہاب کو بے نظیر بھٹو نے 1993 میں کراچی کی شہری حکومت کے تحت چلنے والی ایدھی ایئرایمبولینس کی سروس کمیٹی کے اراکین میں شامل کیا، لیکن پھر اسی برس ہی انہیں پیپلز پارٹی میں انسانی حقوق سیل کی ذمہ داریاں دی گئیں۔فوزیہ وہاب 2 بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، آخری بار وہ 2008 میں رکن اسمبلی منتخب ہوئیں، انہوں نے حدود آرڈیننس، خواتین کے حقوق اور توہین رسالت کے حوالے سے قانون سازی اور تحاریک میں بھرپور حصہ لیا۔لیکن سیاست میں آنے سے کئی برس قبل انہوں نے اداکاری بھی کی،مگر وہ ملک میں اداکارہ کے بجائے سیاستدان کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہیں۔کم عمری میں صحافی اور سیاسی ٹی وی ٹاک شو کے میزبان وہاب صدیقی سے شادی کرنے کے بعد 1991 میں انہوں نے ڈائریکٹر حسینہ معین کے ڈرامے’ ’کہر‘ ‘میں اہم کردار ادا کیا۔فوزیہ وہاب نے 1991 سے 1992 تک کچھ ماڈلنگ منصوبوں میں بھی کام کیا، لیکن اگلے تین سال بعد وہ ادکارہ سے سیاستدان بن چکی تھیں۔فوزیہ وہاب 12 جون 2012 کو پتے کی بیماری کے باعث کراچی کے خانگی ہسپتال میں چل بسیں، ان کے تین آپریشن کئے گئے، لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکیں۔پیپلز پارٹی کی رکن سندھ اسبملی اور سابق صوبائی وزیر ثقافت شرمیلا فاروقی کو پاکستان کے کئی لوگ متحرک اور نوجوان سیاستدان کے طور پر پہنچانتے ہیں۔شرمیلا فاروقی کا شمار نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی خوبصورت اور جوان سیاستدانوں میں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے بھی سیاست میں آنے سے کئی سال قبل 1997 میں پاکستان ٹیلی وڑن (پی ٹی وی) کے ڈرامے ’’پانچواں موسم‘ ‘میں اہم کردار ادا کیا۔اگرچہ ان کی اداکاری کا سلسلہ بھی زیادہ نہیں چل سکا، لیکن وہ اداکاری کو خیرباد کہنے کے بعد کلچر، فنون لطیفہ اور ثقافت کے قریب ہی رہیں، اسی وجہ سے 2013 کے پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں محکمہ ثقافت کا قلمدان بھی سونپا۔پنجاب کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) کی لاہور سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والی کنول نعمان کو بھی لوگ سیاستدان کے بجائے اداکارہ کے طور پر زیادہ جانتے ہیں۔لگ بھگ 20 سال تک شوبز انڈسٹری تک متعدد ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے والی کنول نعمان سیاست میں آنے سے قبل ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی متحرک رہیں۔کنول نعمان 2013 کے انتخابات میں پی ایم ایل این کی جانب سے مخصوص نشست پر پنجاب کی رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔محمد قوی خان نے بھی رکن قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر کامیاب نہیں ہوسکے ۔معروف ٹی وی سلیبرٹی طارق عزیز کو لوگ صرف ان کے شہر آفاق ٹی وی پروگرام’ ’نیلام گھر‘ ‘کی وجہ سے ہی جانتے ہیں، مگر جہاں انہوں نے ’’انسانیت‘ اور’ ’ہارگیا انسان‘ ‘جیسی فلموں میں کام کیا، وہیں، انہوں نے کچھ ٹی وی ڈراموں میں بھی قسمت آزمائی۔طارق عزیز شوبز کی دنیا میں آنے سے قبل شاگردی کے زمانے میں سٹوڈنٹ پولٹکس میں بھی متحرک رہے، اور اسی وجہ سے ہی وہ 1996 میں لاہور سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے، لیکن ان کا سیاسی کیریئر زیادہ دیر تک نہیں چل سکا، اور 1997 میں ان کا نام سپریم کورٹ آف پاکستان پر حملہ کرنے والوں میں بھی شامل رہا۔مسلم لیگ (ق) (پی ایم ایل کیو) میں بھی شمولیت کی، مگر ان کا سیاسی کریئر ابھر نہ سکا، اور وہ واپس شوبز کی دنیا میں لوٹ گئے۔ریحام خان کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک ٹی وی ہوسٹ اور صحافی ہونے کے بجائے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ ہونے پر جو شہرت ملی، اتنی شہرت انہیں ان کے باقی پورے کیریئر میں نہیں ملی۔اگرچہ ریحام خان نے بطور اداکارہ کوئی کام نہیں کیا، مگر وہ شوبز سے جڑی ہوئی ہیں، انہوں نے نہ صرف پاکستانی نیوز چینلز پر بطور میزبان خدمات سر انجام دیں، بلکہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں بھی ویدر اینکر کے طور پر کام کرچکی ہیں۔ریحام خان نے باقاعدہ طور پر سیاست میں بھی قدم نہیں رکھا، مگر وہ ایک مقبول سیاستدان کی بیوی ہونے کی حیثیت میں سیاسی شخصیت بھی بنی رہیں۔عمران خان سے طلاق کے بعد انہوں نے جہاں صحافت سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی، وہیں وہ سیاست سے بھی دور رہیں، مگر وہ سماجی سرگرمیوں اور فلم سازی میں مصروف ہیں، ممکن ہے آگے چل کر وہ سیاست کا حصہ بنیں، لیکن ان کی جانب سے اداکاری میں انٹری کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔متعدد پشتوں فلموں کام کرکے خود کو ادکارہ کے طور پر منوانے والی مسرت شاہین کو لوگ آج بھی بطور اداکارہ ہی جانتے ہیں، شاید اسی وجہ سے ہی وہ سیاست میں تاحال کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔مسترت شاہین نے متعدد اردو فلموں، ڈراموں اور دیگر منصوبوں میں بھی کام کیا، انہوں نے پروفیشنل زندگی کا بہت بڑا وقت شوبز میں ہی گزارا، اس دوران انہوں نے شہرت بھی حاصل کی، ان کی مشہور فلموں میں ’’حسینہ ایٹم بم‘‘‘،’’ ’آوارہ‘‘ اور’دھمکی شامل ہیں۔کم سے کم 20 سے زائد پشتو فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ مسرت شاہین نے 2000 کے بعد سیاست میں آتے ہوئے پاکستان تحریک مساوات (پی ٹی ایم) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔اگرچہ وہ سیاست میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں، مگر وہ ہر انتخابات میں معروف مذہبی سیاستدان اور جمعیت علماء اسلام (ف) (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف مد مقابل ہوتی ہیں، جس وجہ سے وہ ہمیشہ خبروں میں رہتی ہیں۔سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی سیاسی ٹیم میں شامل رہنے والی عتیقہ اوڈھو کو بھی پاکستانی عوام اداکارہ اور ٹی وی پرسنلٹی کی حیثیت میں جانتا ہے۔لگ بھگ 27 برس تک شوبز اورآرٹ کی دنیا میں رہنے والی عتیقہ اوڈھو نے کم سے کم 35 ڈراموں اور 6 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے سمیت متعدد ٹی وی شوز کی میزبانی بھی کی۔اگرچہ انہوں نے باقاعدہ عوامی سیاست نہیں کی، مگر وہ پرویز مشرف کی پریس انفارمیشن ٹیم کا حصہ رہیں، اور کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کے بعد جلد واپس اپنی پرانی شوبز کی دنیا میں آئیں۔نوجوان اداکار، ماڈل اور ہوسٹ حمزہ علی عباسی کو لوگ جہاں بطور فلمی ایکٹر اور ماڈل جانتے ہیں، وہیں انہیں کئی لوگ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اہم رکن کے طور پر بھی جانتے ہیں۔اگرچہ حمزہ علی عباسی کو شوبز کی دنیا میں بھی بہت بڑا عرصہ نہیں گذرا، مگر انہوں نے کم عرصے میں اچھی خاصی کامیابی بٹوری، اور ساتھ ہی ساتھ وہ پی ٹی آئی کے متحرک کارکن کے طور پر بھی نظر آتے ہیں۔حمزہ علی عباسی سوشل میڈیا پر اہم سیاسی موضوعات پر بحث کرنے سمیت تحریک انصاف کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔ابرارالحق کو پاکستانی عوام ایک گلوکار کے طور پر ہی جانتا ہے، لیکن ساتھ ہی انہیں تحریک انصاف کے جلسوں میں گانے گاتے ہوئے دیکھ کر عوام کو اندازہ ہوچلا ہے کہ وہ سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔متعدد ویڈیو، آڈیوالبم کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والے ابرارالحق ٹی وی شوز کی میزبانی بھی کرچکے ہیں، مگر انہیں سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔جنون گروپ سے شہرت حاصل کرنے والے سلمان احمد کو بھی لوگ ایک گلوکار کے طور پر ہی جانتے ہیں، مگر وہ بھی ابرارالحق کی طرح گزشتہ چند سال سے تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔اگرچہ سلمان احمد کو بھی تحریک انصاف میں کوئی اہم اور بڑی ذمہ داری نہیں دی گئی، مگر وہ سیاست میں اپنا نام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔