نظام انصاف کی اصلاح ،نئے چیف جسٹس کے لئے بڑا چیلنج

نظام انصاف کی اصلاح ،نئے چیف جسٹس کے لئے بڑا چیلنج
نظام انصاف کی اصلاح ،نئے چیف جسٹس کے لئے بڑا چیلنج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

18جنوری 2019ء کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس آصف سعیدکھوسہ کے پاس تقریباً گیارہ ماہ ہوں گے۔ بہت کم عرصہ ہے، لیکن جس انداز سے وہ کام کرتے ہیں اور جس قدر عمیق ان کا تجربہ ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس مختصر مدت میں بھی بڑے دوررس فیصلے کر سکتے ہیں۔ویسے تو سپریم کورٹ نے اپنا جو کردار اپنا لیا ہے،نہ صرف بہت ہمہ گیر ہے،بلکہ ہمہ جہت کہنا چاہیے کہ معاشرے کا ہر پہلو اور شعبہ اس کی دسترس میں آ گیاہے۔

خاص طور پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح معاشرے کی مختلف خرابیوں کی اصلاح کے لئے کام کیا، اس کی وجہ سے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ صحیح معنوں میں بڑے نگران کا کردار ادا کر رہی ہے جو انسانی حقوق اور قومی مفاد کو یقینی بنانے پر نظر رکھتا ہے، تاہم جو سب سے بڑی تشنگی محسوس ہوتی ہے، وہ نظامِ انصاف میں بہتری کا نہ ہونا ہے۔

خاص طور پر انصاف کی فراہمی میں سال ہا سال کی مدت اور رکاوٹیں اس بنیادی انسانی حق کو سوالیہ نشان بنا دیتی ہیں۔ اپنے منصب کی مدت کے آخری دنوں میں چیف جسٹس ثاقب نثار یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کے راستے میں بڑی رکاوٹ انگریزوں کے بنائے ہوئے فرسودہ قوانین ہیں۔ قوانین کو بدلنا سپریم کورٹ کا کام نہیں، یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے حکومت کو تجاویز بھجوا دی گئی ہیں، اب ان پر قانون سازی ہونی چاہیے۔

یہ بات انہوں نے بہبود آبادی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کہی تھی کہ اب وہ اپنا کام کریں، پارلیمنٹ لایعنی بحثوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اس طرف توجہ دے۔

گویا ایک حوالے سے چیف جسٹس یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، اب جو کرنا ہے حکومت نے کرنا ہے۔ کیا واقعی اس تھیسز کو درست مانا جا سکتا ہے۔ کیا واقعی موجودہ عدالتی نظام میں یہ ممکن نہیں کہ عدالتیں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف دے سکیں؟
اب یہ ہے وہ سوال جسے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ کیا وہ بھی اسی بیانیہ کو اختیار کریں گے یا ان کی کوشش یہ ہو گی کہ موجودہ عدالتی فریم ورک میں رہتے ہوئے کارکردگی بہتر بناکر سستے اور فوری انصاف کی راہ ہموار کریں۔

اگر نئے چیف جسٹس اپنا یک نکاتی ایجنڈا انصاف کی فراہمی بنا لیں تو ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، کیونکہ آج لوگ پوچھتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، حکومتی عہدیداروں کو بلا کر ان سے کارکردگی کے بارے میں پوچھتے رہے ہیں، مگر انہوں نے ملک کے وزیر قانون یا سیکرٹری کو کبھی بلا کر نہیں پوچھا کہ نظامِ انصاف کی بہتری کے لئے وہ کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟ ججوں اور عدالتوں کی تعداد بڑھانے اور پرانے قوانین کے سقم دور کرنے کے لئے کیا کررہے ہیں؟ اس حوالے سے وہ کوئی ڈیڈ لائن بھی مقرر کرسکتے تھے، مگر انہوں نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انصاف کا حصول پہلے سے بھی دشوار ہو چکا ہے۔ کیسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور قوانین کے علاوہ بھی کچھ ایسی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں، جنہوں نے نظامِ انصاف کو مفلوج کر دیا ہے، مثلاً وکلاء کا رویہ، پولیس کی غیر ذمہ داری اور نچلی عدلیہ کی بے بسی۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے تھی ،مگر ہمیشہ کی طرح صرف نظر کیا جاتا رہا۔ مصلحتاً یا مجبوری کی وجہ سے چیف جسٹس ثاقب نثار بھی وکلاء کو ضابطۂ اخلاق کے دائرے میں نہ لا سکے۔ اس مقصد کے لئے ان کے پندو نصائح بھی کام نہ آئے۔
قوانین تو اب بھی بہت موثر ہیں، عدالتوں میں کیسز بھی لگتے ہیں ،مگر اس نظام کی ڈرائیونگ سیٹ پر جج نہیں وکیل بیٹھے ہیں۔ وہ جس رفتار سے چاہتے ہیں گاڑی کو چلاتے ہیں یا پھر چلنے ہی نہیں دیتے۔چل پڑے تو جہاں چاہے بریک لگا دیتے ہیں انصاف کی راہ میں حائل ان ساری رکاوٹوں کو نامزد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بہت قریب سے دیکھا ہے، وہ اس نظام کا ایک طویل عرصے سے حصہ ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے وکلاء کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا، کس طرح زیریں عدلیہ کے ججوں کو بے توقیر ہوتے دیکھا اور آنکھیں بند کئے رکھیں، کسی جج کا اگر اعتماد متزلزل ہو جائے تو انصاف اس کے قلم سے روٹھ جاتا ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی چیف جسٹس کو یہ کیوں کہنا پڑتا ہے کہ وکلاء اس کی طاقت ہیں۔ قانون کو اپنی طاقت نہ سمجھنے والے جب کسی کمیونٹی کی حمایت پر چلنے لگیں تو وہ پورے ملک کو ٹھیک کر سکتے ہیں سوائے نظامِ انصاف اور عدالتی نظام کے۔۔۔ وہ ہر شعبے کے افراد کو عدالت میں بلا کر سرزنش کر سکتے ہیں، مگر بار کے کسی صدر کی ہرگز نہیں وہ اپنی ماتحت عدلیہ کو تھپڑ کھاتے، جوتیوں کا ہدف بنتے اور جان بچانے کے لئے اپنے چیمبر کی جانب بھاگتے دیکھ سکتے ہیں،لیکن اُف نہیں کر سکتے۔

ایسا افتخار محمد چودھری کے دور میں بھی دیکھا گیا اور چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور بھی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ کیا یہی وجہ تو نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے شعبے کو درست کرنے کی طرف نہیں آتی کہ اس میں بہت سے مقامات آہ و فغاں بھی آتے ہیں اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پچھلے دس برسوں میں نچلی سطح کی عدلیہ کے ججوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے، کئی ضلع کچہریوں میں تو ججوں کے بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی۔ اب اس سے تھوڑی بہت تو بہتری آنی چاہئے تھی، مگر الٹا ترقیء معکوس دیکھنے میں آئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماتحت عدلیہ یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر وکلاء کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ مرضی سے مقدمات نہیں چلا سکتی، کچہری کا بے تاج بادشاہ ڈسٹرکٹ بار کا صدر ہوتا ہے۔

مَیں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ مقدمات چلانے یا رکوانے کے لئے صدر بار کی مداخلت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اب ایسے میں نئے قوانین بنانے یا ججوں کی تعداد بڑھا دینے سے کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ اب اس سارے منظر نامے پر میرا جی یہ چاہتا ہے کہ اے کاش نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ انصاف کی فراہمی کو اپنا ایجنڈا نمبر ون قرار دیں، زندگی کے دیگر شعبوں کو ٹھیک کرنے کے لئے دوسرے ادارے اور محکمے موجود ہیں۔ انصاف فراہم ہونے لگے گا تو وہ بھی خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

اس کے لئے نئی جوڈیشل پالیسی بنائی جائے۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جرأت مندانہ فیصلے کئے جائیں، جس نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، اس کے لئے حکومت کو سنجیدہ سفارشات بھیجی جائیں۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی سطح پر ججوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مکمل اعداد و شمار کے ساتھ ڈیٹا تیار کیا جائے اور حکومت اس پر توجہ دے۔

کہنے کو یہ آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ بار اور بنچ نظامِ انصاف کی گاڑی کے دو پہئے ہیں، تاہم اس پہلو کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ دونوں پہیے مخالف سمت میں کیوں چلتے ہیں، کیوں ان کی منزل انصاف کی فراہمی نہیں، بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا بن جاتی ہے؟
معاشرہ انصاف کے لئے بلک رہا ہے۔ سب محکموں اوراداروں میں خرابیاں اس لئے ہیں کہ نظامِ انصاف میں جان نہیں۔ عدالتوں میں ساٹھ فیصد سے زائد مقدمات سرکاری محکموں کے خلاف دائر ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں ظلم کا بازار گرم ہے۔ پھر یہ مقدمات سالہا سال چلتے ہیں، اگر انصاف فوری ہوتا ہو تو کسی سرکاری ملازم کی جرات نہ ہو کہ وہ خلقِ خدا پر اپنے منصب کے اندھا دھند اختیار کے ذریعے ظلم ڈھا سکے۔ جن ممالک میں عدالتی نظام آزاد اور خودمختار ہے، وہاں فلاحی ریاستوں کا قیام ممکن ہو چکا ہے۔

امریکہ، برطانیہ، یورپ کے دیگر ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ نہ وہاں بار اور بنچ کے گٹھ جوڑ کی ضرورت ہے، وہاں قانون کی عملداری ہے اور اس سے کوئی روگردانی نہیں کر سکتا۔

نئے پاکستان کا بہت شورشرابہ ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انصاف کو یقینی بنائے بغیر نیا پاکستان بن ہی نہیں سکتا۔ نیا سال چڑھا ہے تو نئے چیف جسٹس بھی آ رہے ہیں۔

قوم کو ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، تاہم انہیں نظامِ انصاف کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے، یہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، حالانکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انصاف نہیں، انصاف ہو تو کرپشن خودبخود ختم ہو جائے گی، ترقی یافتہ ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے۔

مزید :

رائے -کالم -