معاشی ترجمان نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا

معاشی ترجمان نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا
معاشی ترجمان نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ ڈاکٹر فرخ سلیم حکومت کے معاشی ترجمان ہیں یا نہیں ان کا تعارف ہمیشہ اسی حیثیت میں کر ایا گیا لیکن انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر جن خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد ان سے اظہار تعلقی ہی بنتا تھا سو یہ اظہار کوئی وقت ضائع کئے بغیر کر دیا گیا، کہنا ان کا یہ تھا کہ روپے کی قدر کم ہونے کے باوجود برآمدات نہیں بڑھ رہیں، تجارتی خسارہ قابو میں نہیں آ رہا، حکمت عملی کام نہیں کر رہی، ہمیں متبادل سوچنا ہو گا، دوست ملکو ں سے جو قرضے لئے گئے ہیں وہ ایک سال بعد سود سمیت واپس کرنے ہوں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم بیماری کا علاج نہیں کر رہے اس کی علاما ت دبا رہے ہیں، کسی حکومتی ترجمان سے چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی اس طرح کی صاف گوئی کی توقع ہرگز نہیں کی جاتی خاص طور پر ان ایام میں جب چاروں طرف سے خوش خبریوں کی بوچھاڑ کی جا رہی ہو، سعودی عرب اور یو اے ای سے ملنے والے تین تین سو ارب ڈالر کو اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کا شاہکار تصور کیا جا رہا ہو،(سعودی عرب سے دو ارب ڈالر مل چکے تیسری قسط ابھی اسی ماہ آئے گی البتہ یو اے ای سے صرف وعدہ ہوا ہے، ابھی کوئی رقوم نہیں پہنچیں) یہ دونوں قرضے ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر خوش تو ہوا جا سکتا ہے لیکن انہیں خرچ نہیں کیا جا سکتا بس یہ رقمیں ایک سال تک ہمارے حساب میں پڑی رہیں گی اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے کہ چھ ارب ڈالر ہمارے پاس ہیں، سال گزرے گا تو یہ رقم سو د سمیت واپس کرنا ہو گی جو بالترتیب 3.18 اور 3.20 فیصد ہو گا، ذرا تصور فرمائیے کہ اگر یہ قرض اسحاق ڈار نے لیا ہوتا اور ’’مصنوعی طور پر‘‘ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں کھڑا کیا ہوتا تو ان پر کیسے کیسے بہتان نہ لگتے اور ان کی حکومت کس کس طرح کی نشتر زنی کی زد میں نہ ہوتی، یاد پڑتا ہے کہ جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے تو انہوں نے ڈالر کی شرح تبادلہ ایک سو روپے سے کم کر کے دکھا دی تھی اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت گرنے والی ہے جن کے پاس پڑے ہیں وہ فروخت کر دیں پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی ایک سیاست دان نے اسحاق ڈار کے دعوے کو غلط قرار دیا اور کہا لوگو یہ جھوٹ بولتا ہے اس پر اعتبار نہ کرنا اور بھی بہت کچھ کہا لیکن اسحاق ڈار نے یہ کر دکھایا اور مہینوں (بلکہ شاید سال بھر تک) یہی کیفیت رہی، پھر جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو روپیہ مستحکم تھا، اس کا ڈھلوان کی جانب سفر تو نگران حکومت کے دور میں شروع ہوا کیونکہ اس دور کی وزیر خزانہ کو روپے کا ’’یہ مصنوعی استحکام‘‘ گوارا نہ تھا انہوں نے ڈالر کی پرواز کھلی چھوڑ دی اور یہ نئی بلندیوں کو چھونے لگا، یہ وزیر صاحبہ جاتے جاتے یہ خوش خبری بھی سنا گئیں کہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑے گا چنانچہ خوش خبری کے عین مطابق موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے درِ دولت سے بیل آؤٹ پیکیج کی امید لگائے بیٹھی ہے جس نے پہلے تو گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھوائیں پھر روپے کا جھٹکا کروایا، ان فیصلوں کے نتیجے میں مہنگائی کا وہ طوفان آیا جو اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا اس کے باوجود حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کو کامیاب قرار دے رہی ہے، حالانکہ ماہرین اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں روپے کی قیمت تو اس امید پر کم کی گئی تھی کہ برآمدات بڑھیں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور یہ بات وہ معاشی ترجمان بھی مانتے ہیں جو آنِ واحد میں ’’تھے‘‘ ہو گئے ۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ برآمد کرنے کے لئے کچھ ہو گا تو دنیا خریدے گی پھر جو مصنوعات ہمارے ہاں تیار ہو رہی ہیں وہ اگر دنیا کے گاہکوں کو کسی دوسرے ہمارے جیسے ملک سے ارزاں نرخوں پر ملیں گی تو انہیں پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ سستی اشیا چھوڑ کر مہنگی خریدنے کی جانب مائل ہوں کیونکہ انہوں نے جو اشیا بھی خریدنی ہیں وہ آگے مارکیٹ میں ہی فروخت ہونی ہیں جہاں مقابلے اور مسابقت کی فضا ہے، ہم سے تو وہ ستر لاکھ ٹن گندم نہیں سنبھالی جا رہی جو گوداموں میں سڑ رہی ہے لیکن ہم اسے فروخت یا برآمد نہیں کر سکے ۔پاکستان کے اندر مہنگائی کا جو سونامی ننگا ناچ رہا ہے اس نے متوسط اور غریب طبقے کی قوت خرید بری طرح متاثر کی ہے، بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں جو خوش قسمتی سے اب بھی ملازمتوں پر موجود ہیں ان کی تنخواہیں کم ہو گئی ہیں کیونکہ مالکان بھی معاشی دباؤ میں ہیں یہ دو طرفہ عذاب ہے ایسے میں ترقی کے دعوؤں پر توخیر کون اعتبار کرے گا لیکن اگر ڈاکٹر فرخ سلیم نے یہ مان لیا ہے کہ بیماری کا علاج کرنے کی بجائے اس کی علامات کو دبایا جا رہا ہے تو حکومت انہیں معاشی ترجمان ماننے ہی سے انکاری ہو گئی ہے، لیکن انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ تو غلط نہیں ہے جو لوگ مہنگائی کو بھگت رہے ہیں انہیں تو کسی کی دلیلوں اور منطقوں کی ضرورت نہیں انہیں کھلونے دے کر بہلایا تو نہیں جا سکتا، چلئے ڈاکٹر صاحب کی معاشی ترجمانی تو گئی جاتے جاتے انہوں نے جھوٹے دعوؤں کی قلعی تو کھول دی۔ موجودہ حکومت بعض ایسے کاموں کا بھی بلاوجہ کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے جو پہلے سے ہو رہے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ قطر کے بعد اعلان کیا گیا کہ پاکستانیوں کو دوحہ ائیرپورٹ پر ایک ماہ کے لئے ویزہ مفت ملے گا حالانکہ یہ سہولت پاکستانی کئی ماہ سے استعمال کر رہے ہیں اور یہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے بہت پہلے سے دستیاب ہے، اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ قطر کے سعودی بائیکاٹ کی وجہ سے وہاں جانے والوں کی تعداد کم ہو گئی تھی پاکستان سے بھی قطر ائیرویز خالی جا رہی تھی جو دنیا کی ابھرتی ہوئی ائیرلائنوں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن داد دینی چاہئے کہ اس کام کو بھی شاہ محمود کے دورے کا حاصل قرار دے دیا گیا۔ ان سے پوچھنا چاہئے کہ یہ کام تو آپ کی حکومت سے پہلے سے ہو رہا ہے، آپ اس کا کریڈٹ کس حساب میں لے رہے ہیں۔
معاشی ترجمان

مزید :

تجزیہ -