رفعتِ خیال ہی حسنِ خیال ہے
رفعتِ خیال کسی جستجو کا محسن نہیں ہوتا یہ تو نصیب کی بات ہے جسے عطا ہو جاۓ کبھی تو ایک لمحے میں عطا ہو جاتا ہے تو کبھی ساری زندگی گزار کر بھی حاصل نہیں ہوتا رفعتِ خیال تو لطافتِ خیال ہوتی ہے جو کثا فت خیال سے یکسر مختلف ہوتی ہے سوال یہ یپدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے پیمانے ہیں جن سے گزر کر حسنِ خیال کی بلندیوں کو چھوا جا سکتا ہے۔ رفعتِ تخیلات کے اسرار و رموز کیا ہیں کیا ظاہر کا زوال اور باطن کا عروج رفعت خیال ہے ۔ ہم جب تک فنا اور بقا کے اندر چھپے معانی کو نہ سمجھ لیں باطن سے آشنائی نہ حاصل کر لیں بلند خیال کے مکین نہیں بن سکتے ایک ایسا انسان جس کے نزدیک مادیت ہی مدعائے حیات ہے جس کا دل مادی دنیا کی تمنا ئوں سے لبریز ہو جو اپنے نفس کی تسکین اور لذت وجود میں کھویا رہے جو حاصل اور وصول کی جمع تفریق میں الجھا رہے وہ فروغ خیال کے رتبے کو کیا پہچانے گا ۔حسن خیال وہ بلندی خیال ہے جس کی جڑ میں جذبہ ایثار بلند فکری سوزو گداز اور زندگی کو منفعت بخش بنانا ہو جو خود پرستی کی تمنا سے آزاد ہو جو لزت وجود کے سحر میں نہ گھرا ہواور اندیشوں سے آزاد ہو ۔انسانی زندگی کو عطا کی گی نعمتوں میں حسن خیال ایک نعمت ہے جسے اپنی ذات کی گہرائیوں میں تلاش کر کے تراشا جاتا ہے جیسے جوہری پتھر کو تراش کر کے ہیرا بناتا ہے اسی طرح عام خیال کو رفعت خیال کے سانچے میں ڈھالنا ہی حسنِ زندگی ہے بلکہ حاصل زندگی ہے۔ واصف علی واصف نے کیا خوب فرمایا تھا کہ جس کے مزاج میں دینا نہیں ہے اس کے نصیب میں بلند خیالی نہیں آ سکتی۔ خود غرضی کا الٹ بے غرضی تو بلند خیالی ہے اپنے حاصل کو تقسیم کرنے والا وجودِ ذات کو دوسروں کے لئے وقف کرنے والا لوگوں کو زر اور ذات پرستی کے خوفناک نتائج سے آگاہی دلانے والا ہی خاک نشین سے عرش نشین کی رسائی حاصل کرتا ہے ۔جو بڑے نصیب کی بات ہے یہی تو حسن خیال کا راز ہے یہی تو روح رفعت خیال ہے ۔۔۔۔اور رفعتِ خیال ہی حسنِ خیال ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔