کتابوں کی دنیا

Jan 04, 2025

نسیم شاہد

جاپانی کہاوت ہے جب ساری دنیا آپ کو چھوڑ جاتی ہے تو صرف کتاب آپ کا ساتھ دینے کے لئے موجود ہوتی ہے جبکہ نفسیات دانوں کا کہنا ہے جسے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو وہ کبھی تنہائی  یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں کتاب ہی ایک ایسا ساتھی ہے جو آپ کو کبھی نہیں چھوڑتا نہ بے وفائی کرتا ہے۔ اس لئے کتاب دوستی ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کی زندگی کو بے مقصد اور مایوس ہونے سے بچا لیتی ہے۔ آج کتابوں کی دنیا میں دو کتابوں کو منتخب کیا گیا ہے۔ پہلی کتاب معروف مزاح نگار اور نقاد ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ”تیرے خط، تیری خوشبو“ ہے جبکہ دوسری کتاب ممتاز مزاحیہ شاعر ڈاکٹر عزیز فیصل کی ظریفانہ شاعری پر مشتمل ”بشیراں تم تو واقف ہو“ ہے۔

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ایک ایسے مزاح نگار ہیں، جن کی مزاح نگاری کو ناقدین نے ایک منفرد معیار کی حامل قرار دیا ہے۔ اس وقت اردو ادب کے منظر نامے پر جو مزاح نگار اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں، ان میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا نام سرفہرست ہے۔ تاہم  جس کتاب کا آج یہاں تذکرہ مقصود ہے وہ ان کی مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ نہیں بلکہ ان خطوط پر مشتمل ہے، جو ان کے نام مشاہر کی طرف سے آئے اور ان میں ایک ہمہ کی تصویر موجود ہے۔ خط نویسی آج کے دور میں قصہء پارینہ بن چکی ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ایک دوسرے کو خط لکھتا ہو۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع نے اسے محدود کر دیا ہے۔ تاہم ایک زمانے میں جب یہی رابطے کا ذریعہ ہوتی تھی تو ادیب و شاعر اس کے ذریعے کھل کر اپنی رائے اور تعلق کی وابستگی کا اظہار کرتے تھے۔ غالب کے خطوط تو مشہور  ہیں ہی، تاہم ہمارے بہت سے بڑے ادیبوں، شاعروں نے ایک زمانے میں خطوط کے ذریعے اپنی آراء کا بھی اظہار کیا اور اپنے ادوار کے ماحول کی نشاندہی بھی کی۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی کتاب ”تیرے خط، تیری خوشبو“ اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ ایک عرصے بعد اس صنف کی طرف کسی نے توجہ دی ہے۔ اس کتاب میں بڑے اور نامور ادیبوں،شاعروں کے مصنف کے نام خطوط موجود ہیں جن میں نمایاں نام ممتاز مفتی، میرزا ادیب، سید ضمیر جعفری، احمد ندیم  قاسمی، خالد اختر، مشتاق احمد یوسفی، فتح محمد ملک، منشا یاد، نیلم احمد بشیر، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، انور مسعود اور عطاء الحق قاسمی کے خطوط بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر خطوط اس زمانے کے ہیں جب ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ایام نوجوانی میں اپنے تخلیقی سفر کی راہیں تلاش کررہے تھے مگر حیران کن بات یہ ہے اس زمانے میں بھی ان کی مزاح نگاری بڑے بڑے اہل قلم کو متاثر کررہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے ممتاز مفتی، مشتاق یوسفی، احمد ندیم قاسمی، میرزا ادیب، ضمیر جعفری اور دیگر بڑے ادیبوں کو پہلے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی تحریروں نے متاثر کیا، اس کے بعد ان کا شخصی تعارف ہوا۔ جن دنوں یعنی نوے کی دہائی میں وہ اپنی شہرۂ آفاق تخلیق ”قلمی دشمنی“ کے لئے بڑے ادیبوں سے تعارف فلیپ لکھوانے کے جتن کررہے تھے، انہی دنوں ان کی تحریروں کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ یہ خطوط اس حوالے سے ایک دلچسپ مطالعے کی بنیاد بنتے ہیں کہ کس طرح اس عہد کے بڑے اہلِ قلم تحریر کی چاشنی سے متاثر ہوتے تھے اور یہ نہیں دیکھتے تھے لکھنے والا، ان کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے یا نووارد ہے اور رائے لینے کا مستحق نہیں۔ ممتاز مفتی کے خطوط بہت دلچسپ ہیں، ان جیسا اکھڑ اور بے رحم رائے دینے والا ادیب بھی اگر خطوط میں بار بار اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ تم میں کوئی خاص بات ہے تو اس کا مطلب ہے ممتاز مفتی کی جوہر شناس نظر اشفاق احمد ورک کی صلاحیتوں کو پہچان چکی تھی۔ تاہم ممتاز مفتی کے خطوط صرف رائے کی حد تک نہیں بلکہ متاثر ہونے کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ پھر شگفتہ نثر کے ایسے شاہکار ہیں کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ کتاب بہت سے خولوں کا خزینہ تو ہے ہی تاہم اس میں ان شخصیات کے فکر و نظر کو جاننے کا سامان بھی موجود ہے جو ہمارے ادب کی نابغہء روزگارہستیاں ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمدو رک نے جس طرح خطوط کے پس منظر کی حواشی میں وضاحت کی ہے، اس نے ان خطوط کا مزا دوچند کر دیا ہے۔ اس کتاب کو قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ایسی کتابیں ادب کی اس تاریخ کو سامنے لاتی ہیں جو محفوظ نہ کی جائے تو وقت کی نذر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے ان خطوط کو کتابی شکل میں محفوظ کرکے ایک عمدہ کام کیا ہے، جن اہل قلم کے پاس مشاہیر کے خطوط ہیں، وہ اس کتاب کی پیروی کرتے ہوئے انہیں منظر عام پر لائیں تاکہ شخصیات کے مطالعے میں ان سے استفادہ کیا جا سکے۔

اسلام آباد میں مقیم ڈاکٹر فیصل عزیز ایک منفرد انداز کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا مزاحیہ شاعری پر مشتمل شعری مجموعہء ”غلط پارکنگ“ شائع ہوا تھا، جسے ادبی حلقوں کی طرف سے بھرپور داد ملی۔ ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کا بے ساختہ پن ہے جو پڑھنے والے کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے جو معاشرے کی دوعملیوں کے باعث ہماری زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔ اب ان کا دوسرا شعری مجموعہ ”بشیراں تم تو واقف ہو“ شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری ”غلط پارکنگ“ کی شاعری سے کچھ آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔مزاحیہ شاعری کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ البتہ لفظوں کو بگاڑ کے، کسی کی تضحیک کرکے اور معاشرے کی اقدار کو نشانہ بنا کے شاعری کرنے والے بہت ہیں اور مشاعرے کی واہ واہ انہیں مزید ایسی شاعری پر اکساتی ہے جو شاعری کی بجائے بھانڈوں کی جگت بازی لگتی ہے۔ ڈاکٹر عزیز فیصل کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مزاح کو ٹھٹھے مخول کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ان کی معاشرے کے حالات پر پوری نظر ہے اور وہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جو اب سامنے کی حقیقتیں ہیں لیکن ہم ان سے نظریں چراتے ہیں۔ ان کی شاعری پر معروف نقاد پروفیسر غلام حسین ساجد نے ایک جامع مضمون تحریر کیا ہے جبکہ کتاب میں شامل استادلاساتذہ ڈاکٹر نجیب جمال کا مضمون بھی شامل ہے۔ یہ دو بڑے نقاد اگر ڈاکٹر عزیز فیصل کی شاعری کو ظرافت کی اعلیٰ مثال قرار دیتے ہیں تو باقی کیا کسر رہ جاتی ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال لکھتے ہیں: ”عزیز فیصل نے مزاح کو محض پھبتی، تمسخر یا مذاق کی شکل بگاڑنے کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ سماجی ناہمواریوں کی مختلف صورتوں کو ظاہر کرنے کے لئے کیا ہے“، جبکہ پروفیسر غلام حسین ساجد نے اپنی رائے دیتے ہوئے انہیں منفرد شاعر کی سند عطا کی ہے وہ کہتے ہیں ”عزیز فیصل کی شاعری اسلوب اور زبان کی سطح پر اپنے ہم عصر فکاہیہ شاعروں سے قطعی طور پر الگ ہے، انہوں نے انگریزی لفظیات کے استعمال سے جو رنگ پیدا کیا ہے، اب وہ ان کا برانڈ بن چکا ہے“۔ ڈاکٹر عزیز فیصل کی شاعری میں معاشرتی عکس تو نظر آتا ہی ہے مگر اس انداز  سے کہ جن حقیقتوں سے ہم نظر چرا کے گزر جانا چاہتے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ڈاکٹر عزیز فیصل کے دو اشعار:

اس بار بیمے والوں سے لوں گا ڈبل روپے!

اس بار مل کے آگ لگائی ہے ٹھیک ٹھاک

تو بھی پرائیویٹ بنا یونی ورسٹی

اس کام میں عزیز کمائی ہے ٹھیک ٹھاک

مزیدخبریں